بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیئرز پر زکات کابحکم / کرایہ پر اٹھائی ہوئی جگہ پر زکات کا حکم


سوال

1۔ شیئرز پر زکوة کا حکم کیا ہے؟

2۔ کرایہ پر اٹھائی پراپرٹی  پر زکوة کا حکم کیا ہے ؟

مذکوہ بالا دونوں مسئلوں سے متعلق تحریر فتوی درکار ہے۔

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں  شیئرز  کی مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے زکوة واجب ہوگی، خواہ مارکیٹ ویلیو   شیئر ہولڈر کی قیمت خرید سے بڑھ گئی ہو یا کم ہو گئی ہو۔ 

زکوة کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

" شیئرز کی زکوۃ موجودہ قیمت کے اعتبار سے ادا کی جائے گی ، سابقہ قیمت پر نہیں مثلا اگر کسی نے تجارتی کمپنی سے شیئرز خریدے، اور خریدتے وقت ایک شئیر کی قیمت سو روپے تھی اور جب سال پورا ہوا، اس وقت ایک شیئرز کی قیمت دو سو روپے ہوگئی، تو فی شئیر دو سو روپے کے حساب سے زکوۃ ادا کرے۔ 

اور اگر اس وقت ایک شئیر کی قیمت پچاس روپے ہوگئی تو فی شئیر پچاس روپے کے حساب سے زکوۃ ادا کرے۔"

( بعنوان: شیئرز پر زکوة، ص: ٢٨٦ - ٢٨٧، ط: بيت العمار )

وفیہ ایضا:

"اگر شیرز خریدنے والوں نے کمپنی کو زکوۃ نکالنے کی اجازت دی ، اور کمپنی نے سب کی طرف سے زکوۃ نکال کر غریبوں میں تقسیم کر دی تو زکوۃ ادا ہو جائے گی۔ 

 اگر شیرز خریدنے والوں نے کمپنی کو زکوۃ نکالنے کی اجازت نہیں دی اور کمپنی نے اجازت کے بغیر اجتماعی طور پر زکوۃ ادا کر دی تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی ۔

اگر شیئرز خریدنے والوں نے کمپنی کو زکوۃ نکالنے کی اجازت نہیں دی تو ہر خریدار پر لازم ہے کہ سالانہ اپنی اپنی زکوۃ خود حساب کر کے ادا کر دے ، ورنہ زکوۃ ذمہ میں باقی رہ جائے گی ۔"

( بعنوان: شیئرز کی زکوة کیسے ادا کرے، ص: ٢٨٨ - ٢٨٩، ط: بيت العمار )

فیہ ایضا:

"شیرز کی اصل رقم یعنی شیئرز    کی قیمت خرید اور شیئرز   کے منافع دونوں پر زکوۃ واجب ہے، لہذا دونوں کے مجموعی رقم سے ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کر دے۔ 

اور اگر نفع نہیں ہوا تو اس صورت میں شیئرز کی مارکیٹ قیمت کے اعتبار سے ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کر دے۔"

(بعنوان: شیئرز کے اصل اور نفع دونوں پر زکوة ہے، ص: ٢٨٩، ط: بيت العمار )

2۔  کرایہ پر اٹھائی  پراپرٹی کی موجودہ قیمت پر زکات واجب نہ ہوگی، البتہ کرایہ   کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی اگر خرچ نہ ہوتی ہو، بلکہ  کل آمدنی  یا اس میں سے کچھ حصہ محفوظ رہتا ہو، تو اس صورت میں محفوظ کرایہ پر زکوة  واجب ہوگی، بشرطیکہ پراپرٹی  کا  مالک  پہلے سے صاحب نصاب ہو، اور اگر پہلے سے صاحب نصاب نہ ہو اور کرایہ  نصاب کے بقدر جمع ہوجائے اور اس پر  سال  گزرجائے،  تو اس صورت میں محفوظ کرایہ پر زکوة  کی  ادائیگی  لازم ہوگی۔

خزانة المفتينمیں ہے:

" ولو اشترى الرجل دارا أو عبدا للتجارة، ثم آجره يخرج من أن يكون للتجارة؛ لأنه لما آجر فقد قصد المنفعة."

( كتاب الزكاة، فصل في مال التجارة، ص: ٨٦٤)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

" و في الكبري: إذا اشتري دارا، أو عبدا للتجارة، فآجره خرج من أن يكون للتجارة؛ لأنه لما آجره فقد قصد الغلة، فخرج عن حكم التجارة."

( كتاب الزكاة، الفصل الثالث زكاة عروض التجارة، ٣ / ١٦٧، ط: مكتبة زكريا بديوبند- الهند )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100067

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں