بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1446ھ 23 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

شیئرز کو کرایہ پر دینا کیسا ہے؟


سوال

ایک مسئلہ کا حل مطلوب ہے، مسئلہ یہ ہے کہ شیئرز مارکیٹ میں شیئرز کی خرید و فروخت کی طرح شیئرز کو کرایہ پر لینے اور دینے کے لیے مستقل الگ سے بازار چلتا ہے، جس کو SLB یعنی سکیوریٹی لینڈ نگ بوروننگ کہا جاتا ہے،  جس میں شیئر ز کو مہینہ دو مہینہ پانچ مہینہ تک کرایہ پر دیا جاتا ہے، شیئرز کرایہ پر لینے والے کے دمٹ اکاؤنٹ(DEMAT   ACCOUNT) میں منتقل ہو جاتے ہیں ، وہ جتنے وقت تک کرایہ پر لیتا ہے اس وقت تک خرید و فروخت کا خود مختار ہوتا ہے ۔ یہ تمام امور SEBI یعنی "سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا" کی نگرانی میں ہوتے ہیں ، شیئر ز کا کرایہ ہر کمپنی کا الگ الگ ہوتا ہے، جو مارکیٹ میں طے ہوتا ہے ، اسی کے مطابق کرایہ دینا لازم ہوتا ہے۔ کرایہ پر لینے سے پہلے سیبی شیئرز کی قیمت سے زیادہ ڈپوزیٹ (DEPOSIT) بھی کرایہ دار سے وصول کرتی ہے، اس کے بعد ہی شیئر ز کرایہ پر لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ کرایہ پر لینے کے بعد اگر شیئرز کا منافع(DIVIDEND)یا شیئرز کا اضافہ (BONUS) کمپنی کی طرف سے ملتا ہے ، وہ بھی شیئرز کے مالک کو ہی ملتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض ایجنٹ یا بروکرز کا کہنا ہے کہ شیئرز کا منافع یا اضافہ کی تاریخ آتی ہے اس کے ایک یا دو دن پہلے کرایہ دار سے شیئرز کو مالک کے اکاؤنٹ میں لے لیا جاتا ہے تا کہ منافع یا اضافہ مالک ہی کے اکاؤنٹ میں آجائے ، جب مدت مکمل ہو جاتی ہے تو کرایہ دار مالک کو جتنے شیئرز لئے تھے اتنے واپس دینے کا مجاز ہوتا ہے، چاہے شیئرز کی قیمت زیادہ ہوئی ہو یا کم ۔

جو شیئرز اکاؤنٹ میں صرف منافع حاصل کرنے کے لیے خریدے گئے ہیں ایسے شیئرز کو اگر کرایہ پر دیا جاوے تو منافع زیادہ حاصل ہو سکتے ہیں۔ اور اسی طرح شیئرز کے منافع پر انکم ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے، لیکن شیئر ز کو کرایہ پر دینے کی صورت میں انکم ٹیکس سے قانونی اعتبار سے معافی ملتی ہے اس طرح دو فائدے حاصل ہو سکتے ہیں: ایک شیئرز کا کرایہ اور پھر دوسرا یہ کہ انکم ٹیکس سے معافی ۔ ایسی صورت میں شیئرز کو کرایہ پر دیا جا سکتا ہے؟ مدلل و محقق جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں شیئرز کا کرایہ پر دینا جائز نہیں، کیوں کہ اجارہ میں شے کو اپنی اصلی حالت میں برقرار رکھ کر اس کے منافع سے استفادہ کیا جاتا ہے جیسا کہ مکان اور دکان اجارہ پر لے کر اسے استعمال کیا جاتا ہے، اجارہ میں اس چیز کی اصلی وجود کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی،  جب کہ مذکورہ شیرز سے فائدہ اٹھانا تب ممکن ہے جب اسے فروخت کر کے اس کا وجود دوسرے کی ملکیت میں دی جائے، اس لیے اسے اجارہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

دوم یہ کہ سالانہ منافع کی شرح جاری کرنے سے پہلے اگر یہ شخص اپنے فروخت کردہ شیئرز کی جگہ مالک کو لوٹانے کے لیے اتنے شیرز خرید بھی لے تو پھر بھی یہ وہی شیرز قرار نہیں پائیں گے، بلکہ اس کا متبادل ہی رہیں گے، لہٰذا شیئرز کو اجارہ پر دینے کا نہ تو جواز ہے اور نہ ہی عملاً ممکن ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:

"‌‌تعريف الإجارة:1- الإجارة في اللغة اسم للأجرة، وهي كراء الأجير وهي بكسر الهمزة، وهو المشهور...2- وعرفها الفقهاء بأنها عقد معاوضة على ‌تمليك ‌منفعة ‌بعوض."

(حرف الألف، إجارة، الفصل الأول: تعريف الإجارة وحكمها، ج: 1، ص: 252، ط: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، الكويت)

الفتاوی الهنديۃ  میں ہے:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية." 

(کتاب الإجارة، الباب الأول في تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها وبيان أنواعها وحكمها وكيفية انعقادها وصفتها، ج: 4، ص: 459، ط: دار الکتب العلمیة)

المحيط البرهاني میں ہے:

"فأما بيان لفظها فنقول الإجارة إنما تنعقد بلفظين يعبر بهما عن الماضي نحو أن يقول أحدهما أجرت، ويقول الآخر: قبلت استأجرت، ولا تنعقد بلفظين أحدهما يعبر به عن المستقبل نحو: أجرتني، فيقول: أجرت، وهذا لأن ‌الإجارة ‌بيع ‌المنفعة فتعتبر العين..."

(کتاب الإجارات، الفصل الأول: في بيان الألفاظ التي تنعقد بها الإجارةوفي بيان نوعها وشرائطها وحكمها، ج: 7، ص: 393، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144607100776

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں