بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیئرز کی خرید و فروخت


سوال

شیئر ٹریڈنگ جائز ہے یا ناجائز ہے؟

جواب

شیئرز کی خرید و فروخت درج ذیل شرائط کے ساتھ جائزہے :

1-  جس کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت کی جارہی ہو، خارج میں اس کمپنی کا وجود آچکا  ہو، صرف کاغذی طور پر رجسٹرڈ نہ ہو؛ یعنی اس کمپنی کے کل اثاثے نقد کی شکل میں نہ ہوں، بلکہ اس کمپنی نے اپنے کچھ جامد اثاثے بنا رکھے ہوں، جیسے کمپنی کے لیے بلڈنگ بنالی ہو، یا زمین یا مشینری خرید لی ہو یا اس کے پاس تیار یا خام مال موجود ہو۔

2- کمپنی کا  سرمایہ  جائز و حلال ہو، اور اس کے شرکاء میں سودی کاروبار کرنے والے اداروں یا  افراد کا سرمایہ شامل نہ ہو، یعنی وہ شیئرز نہ تو کسی بینک کے ہوں، اور نہ کسی انشورنس کمپنی کے ہوں، اور نہ ہی اس کمپنی میں بینک، یا انشورنس یا جوا یا شراب یا کسی اور حرام چیز کا کاروبار کرنے والے اداروں کا سرمایہ شامل ہو۔

3- اس کمپنی نے  بینک سے سودی قرضہ نہ لیا ہوا ہو، وجہ اس کی یہ ہے کہ کمپنی کے ذمہ داران تجارت و سرمایہ کاری کرنے میں  شیئر ہولڈرز کے  شرعًا وکیل ہوتے ہیں،  جس طرح سے  خود  سود پر قرضہ لینا جائز نہیں اسی طرح سےکسی کو اس کام کے لیے وکیل بنانا بھی جائز نہیں۔

4- کمپنی کا کاروبار جائز و حلال ہو، یعنی وہ کمپنی  حرام اشیاء کے کاروبار نہ کرتی ہو، اور اس کا کاروبار نہ صرف حلال اشیاء پر مشتمل ہو، بلکہ شرعی اصولوں کے مطابق و شرائط فاسدہ وغیرہ سے پاک ہو،  جوئے، سٹے، شراب، سودی کاروبار میں ملوث نہ ہو، اس لیے کہ جس طرح حرام کاروبار خود کرنا ناجائز ہے، اسی طرح حرام کاروبار میں کسی اور کی معاونت کرنا، یا کسی کو اپنے وکیل بنانا بھی ناجائز ہے۔

5- شیئرز کی خرید و فروخت میں، خرید و فروخت کی تمام شرائط کی پابندی ہو۔ (مثلاً: شیئرز خریدنے کے بعد وہ مکمل طور پر خریدار کی ملکیت میں  آجائیں، اس کے بعد انہیں آگے فروخت کیا جائے، خریدار کی ملکیت مکمل ہونے اور قبضے سے پہلے شیئرز آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا، اسی طرح فرضی خریدوفروخت نہ کی جائے)۔آج کل C.D.C اکاونٹ میں شیئرز کا منتقل ہوجانا شرعاً قبضہ کہلائےگا، C.D.C اکاونٹ میں منتقل ہوجانے سے پہلے صرف موبائل میں میسج آجانے پر شیئرز کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں۔

6- حاصل شدہ منافع کل کا کل شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کیا جاتا ہو، (احتیاطی) ریزرو کے طور پر نفع کا کچھ حصہ محفوظ نہ کیا جاتا ہو، پس جو کمپنی کل منافع کو تمام شیئر ہولڈرز میں تقسیم نہ کرتی ہے، بلکہ منافع میں سے کچھ فیصد مثلاً 20 فیصد مستقبل کے ممکنہ نقصان کے خطرہ کے پیشِ نظر اپنے پاس محفوظ  کرلیتی ہو، اور منافع کا بقیہ 80 فیصد  شیئر ہولڈرز میں تقسیم کرتی ہو، اس کمپنی کے شیئرز خریدنا جائز نہیں۔

7-  خریدے گئے شیئر کی وصولی اور اس کی قیمت کی ادائیگی دونوں ادھار نہ ہوں، یعنی مثال کے طور پر خریدار زبانی شیئر آج کی قیمت پر خریدے، اور قیمت کی ادائیگی اور شیئر کی وصول ایک ہفتہ بعد طے کرے، تو صورت بھی جائز نہیں۔

8- شیئرز کی خرید و فروخت میں جوے کی صورت نہ ہو، بعض مرتبہ شیئر کے خریدار کا مقصد ڈیفرینس برابر کرنا ہوتا ہے،  یعنی اس کا مقصد کمپنی کا حصہ دار بن کر سالانہ منافع حاصل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد کم قیمت پر خرید کر قیمت بڑھتے ہی فروخت کرنا ہوتا ہے، اس غرض سے شیئرز کی خرید و فروخت کرنے  والے شیئرز پر شرعی قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کر دیتے ہیں، جس میں اصل رقم کے بڑھنے اور ڈوبنے دونوں کا خطرہ ہوتا ہے، جسے شریعت کی اصطلاح میں جوا کہا جاتا ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"وأما شرائط المعقود عليه فأن يكون موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه وأن يكون مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم ... وخرج بقولنا وأن يكون ملكا للبائع ما ليس كذلك فلم ينعقد بيع ما ليس بمملوك له، وإن ملكه بعده."

(كتاب البيع، شَرْطُ الْعَقْدِ، ٥ / ٢٧٩ - ٢٨٠، ط: دار الكتاب الإسلامي)

الفقه الإسلامي و ادلته میں ہے:

"وأما الموكل فيه (محل الوكالة): فيشترط فيه ما يأتي: ....

أن يكون التصرف مباحاً شرعاً: فلا يجوز التوكيل في فعل محرم شرعاً، كالغصب أو الاعتداء على الغير."

(الوكالة، شروط الوكالة، الموكل فيه، ٤ / ٢٩٩٩، ط: دار الفكر)

الجوهرة النيرة میں ہے:

"(ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) مناسبة هذه المسألة بالمرابحة والتولية أن المرابحة إنما تصح بعد القبض ولا تصح قبله."

(كتاب البيوع، بَابُ الْمُرَابَحَةِ وَالتَّوْلِيَةِ، ١ / ٢١٠، ط: المطبعة الخيرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما شركة العقود فأنواع ثلاثة: شركة بالمال، وشركة بالأعمال وكل ذلك على وجهين: مفاوضة وعنان، كذا في الذخيرة. وركنها الإيجاب والقبول وهو أن يقول أحدهما: شاركتك في كذا وكذا ويقول الآخر: قبلت، كذا في الكافي، ويندب الإشهاد عليها، كذا في النهر الفائق. وشرط جواز هذه الشركات كون المعقود عليه عقد الشركة قابلا للوكالة، كذا في المحيط وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع. وحكم شركة العقد صيرورة المعقود عليه وما يستفاد به مشتركا بينهما، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الشركة ، الباب الأول في بيان أنواع الشركة، الفصل الأول في بيان أنواع الشركة، ٢ / ٣٠١ - ٣٠٢، ط: دار الفكر)

أحكام القران للجصاص میں ہے:

"وحقيقته تمليك المال على المخاطرة وهو أصل في بطلان عقود التمليكات الواقعة على الأخطار."

( المائدة: ٩٠، باب تحريم الخمر، ٤ / ١٢٧، ط: دار احياء التراث العربي)

احكام القران للجصاص میں ہے:

" ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار قال ابن عباس إن المخاطرة قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال والزوجة وقد كان ذلك مباحا إلى أن ورد تحريمه وقد خاطر أبو بكر الصديق المشركين حين نزلت الم غلبت الروموقال له النبي صلى الله عليه وسلم زد في الخطر وأبعد في الأجلثم حظر ذلك ونسخ بتحريم القمار ولا خلاف في حظره إلا ما رخص فيه من الرهان في السبق في الدواب والإبل والنصال إذا كان الذي يستحق واحدا إن سبق ولا يستحق الآخر إن سبق وإن شرط أن من سبق منهما أخذ ومن سبق أعطى فهذا باطل فإن أدخلا بينهما رجلا إن سبق استحق وإن سبق لم يعط فهذا جائز وهذا الدخيل الذي سماه النبي صلى الله عليه وسلم محللا."

( البقرة: ٢١٩، باب تحريم الميسر، ٢ / ١١، ط: دار احياء التراث العربي)

جواہر الفتاوی میں ہے:

"مثلاً آدمی جس حصص کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے، اس پر شرعی طریقہ پر قابض ہو، اور دوسرے کو تسلیم و حوالہ کرنے پر قادر ہو۔

واضح رہے کہ قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے شیئرز کا خرید نے  والے کے نام پر رجسٹر یا الاٹ ہونا ضروری ہے، رجسٹر یا الاٹ ہونے سے پہلے زبانی وعدہ یا غیر رجسٹر شدہ حصص کی خرید و فروخت کمی بیشی کے ساتھ جائز نہ ہوگی، کیوں کہ ایسے حصص درحقیقت رسیدیں ہیں، کمپنی کے واقعی حصے نہیں، اس واسطے نفع و نقصان کا مالک صرف رجسٹر شدہ اسامی سمجھے جاتے ہیں، مثلاً ایک شخص نے فی شیئر دس روپے کرکے سو شیئر خریدنے کے لیے کسی سے کہہ دیا، اور یہ بھی کہا ہے کہ ہفتہ بعد پیسے دے کر شیئر وصول کرے گا، تو ایسے حالات میں یہ خرید و فروخت صحیح نہیں ہوئی ۔۔۔ لہذا ایسے شیئر کی کمی بیشی کے ساتھ  خرید و فروخت جائز نہیں ہے، حرام ہے، البتہ یہ صحیح ہے کہ پہلے شیئرز رجسٹر ہوجائے، اور قیمت بھی ادا کردی جائے، یا قیمت اب تک ادا کرنا باقی ہے، شیئرز وصول کرلیے ہیں، تو اس صورت میں حصص کو بیچ کر منافع لینا جائز ہے۔"

( ٣ / ٧٢ - ٧٣، ط: اسلامی کتب خانہ)

جواہر الفتاوی میں ہے:

"یہ خرید و فروخت دونوں طرف سے ادھار ہے، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

نهي رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم عَن بيع الكالئ بالكالئ.

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھار کی بیع ادھار سے منع  فرمایا ہے۔

اس واسطے مذکورہ طریقے پر شیئرز کی خرید و فروخت نا جائز ہے۔"

( ٣ / ٧٠، ط: اسلامی کتب خانہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100727

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں