بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیئرز کا کاروبار کرنے کا حکم


سوال

میرا چھوٹا بھائی شیئر کا کروبار کرنا چاہتا ہے، کیا شیئر کا کاروبار کرنا شرعاً درست ہے؟

جواب

واضح رہے شیئرز کے خرید وفروخت کے جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے:

1- جس کمپنی یا ادارہ کے حصص (شیئرز) کی خرید وفروخت کی جارہی ہو  وہ کمپنی یا ادارہ حقیقت میں موجود ہو۔

  • یعنی  اس کمپنی یا ادارہ کے ماتحت کوئی جائیداد، کارخانہ، مل، فیکٹری یا کوئی اور چلتا ہوا کاروبار  موجود ہو، اور اگر کمپنی یا ادارہ کے تحت  مذکورہ اشیاء نہ ہوں یا  کمپنی  یا ادارہ سرے سے موجود ہی نہ ہو ، صرف اس کا نام ہو  اور اس کے شیئرز بازار میں  اس لئے چھوڑے گئے  ہوں کہ اس پر پہلے سے زیادہ  رقم حاصل کی جائے اور منافع حاصل کئے جائیں تو ایسی کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت جائز نہیں،   کیوں کہ ہر شیئر کے مقابل  میں صرف جمع شدہ رقم کی رسید ہے،  کوئی جائیداد یا ایسا مال نہیں  جس پر منافع لے کر فروخت کیا جاسکے۔

2- کمپنی کا سرمایہ جائز اور حلال ہو۔

  • یعنی جس موجود کمپنی اور چالو  کاروبار  یا کارخانہ کے حصص (شیئرز) خریدوفروخت کئے جارہے ہوں اس کا سرمایہ جائز  اور حلال ہو، رشوت،چوری،غصب، خیانت،سود، جوئےاور سٹہ پر حاصل  شدہ رقم نہ ہو ، لہذا سودی ادارے جیسے بینک یا انشورنس کمپنی وغیرہ کے شیئرز کی خرید وفرخت جائز نہیں ہے۔
  • کمپنی  کے شرکاء میں سودی  کاروبار کرنے  والے یا کسی اور ناجائز اور حرام  کاروبار کرنے والے اداروں یا  افراد کی رقم  شامل نہ ہو۔

3- کمپنی یا ادارہ کا کاروبار جائز اور حلال ہو ۔

  • یعنی کمپنی یا ادارہ   کے کاروبار کے طریقہ کے درست  ہونے کے ساتھ  ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ  کمپنی یا ادارہ کا کاروبار  بھی جائز ہو، مثلا شرعی شراکت  اور شرعی مضاربت کی بنیاد پر  کاروبار ہو  ، اگر کاروبار ناجائز ہو گا تو اس کمپنی کے شیئرز  کی  خرید وفروخت  جائز  نہیں ہوگی۔
  • اور کمپنی کا کاوربار حلال اور جائز اشیاء کا ہو ، لہذا شراب، جاندار کی تصاویر ، ٹی وی، وی سی آر  اور  ویڈیو فلم  سینما وغیرہ اور اسی طرح دیگر حرام اور ناجائز اشیاء کے کاروبار کرنے والی کمپنیوں کے شیئرز کی خرید وفرخت  ناجائز ہوگی۔

4- شیئرز کی خرید وفرخت میں شرائط بیع کی پابندی کرنا۔

  • یعنی مذکورہ کمپنی یا ادارہ  کے شیئرز  کی خریدوفروخت بیع وتجارت  کے شرعی اصولوں کے مطابق ہو  مثلا  آدمی  جن  شیئرز کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے  اس پر شرعی طریقہ سے قابض ہو  اور دوسروں کو تسلیم اور حوالہ کرنے پر بھی قادر ہو۔

واضح رہے کہ  شیئرز میں قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے  صرف زبانی وعدہ کافی نہیں ہے، نام رجسٹرڈ یا الاٹ ہونا یا سی ڈی سی میں نام آنا ضروری ہے،  اس سے پہلے  صرف زبانی وعدہ یا  سی ڈی سی وغیرہ میں غیر رجسٹرڈ  شیئرز  کی خرید وفروخت ناجائز ہے،  البتہ یہ  درست ہے  کہ شیئرز پہلے بائع  کے نام رجسٹرڈ ہوں اور سی ڈی سی میں نام آجائےتو   اس کے بعد اس کو آگے نفع کے ساتھ  خریدوفروخت  کرنا جائز ہوگا، یا  شیئرز وصول  کرلیے  ہیں لیکن   ابھی تک قیمت ادا نہیں کی  تو اس صورت میں بھی مذکورہ شیئرز کو فروخت کرکے نفع لینا جائز ہے، کیوں کہ مبیع پر قبضہ ثابت ہے۔

5- منافع کی کل رقم کو تمام حصہ داروں  کے درمیان  شیئرز کے مطابق تقسیم کرنا۔  

  • یعنی کمپنی میں جو منافع ہوا ہے اسے تمام حصہ داروں میں  ان کے شیئرز کے مطابق تقسیم کردیا  جائے، لیکن اگر کوئی کمپنی مستقبل کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے  منافع میں سے مثلا  ٪20 فیصد  اپنے لئے مخصوص کرتی ہے اور  80 فیصد  منافع کو حصہ داروں (شیئر ہولڈرز) میں تقسیم  کرتی ہے تو اس کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت ناجائز  اور حرام ہے  کیوں کہ یہ کمپنی شرعی شراکت کے  خلاف  ناجا ئز کاروبار کرتی ہے۔

(ماخوذ از  جواہر الفتاوی،  م؛ مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب: 3/ 258،ط؛ اسلامی کتب خانہ)

مذکورہ تفصیل کی رو  سے صورت ِ مسئولہ میں  سائل  کے چھوٹے بھائی کے لئے  شیئرز  کا کاروبار کرنا اس  صورت میں جائز ہوگا جب دیگر مطلوبہ شرائط کے پائے جانے کے علاوہ سائل کے چھوٹے بھائی کو خریدے گئے شیئرز کی باقاعدہ  ڈیلیوری مل جائے اور فی زمانہ ڈیلیوری کی صورت یہ ہے کہ جس کمپنی کے حصص (شیئرز) کا کاروبار کررہا ہے اس کمپنی کے ریکارڈ میں سی ڈی سی (Central Depository Company) کے ذریعے ان حصص (شیئرز) کی منتقلی خریدار (سائل کے چھوٹے بھائی) کے نام ہوجائے، موبائل میں صرف میسج کا آجانا قبضہ کے لئے کافی نہیں ہے لہذا سی ڈی سی اکاؤنٹ میں سائل کے چھوٹے بھائی کے نام   پر شئیرز   منتقل ہونے سے پہلے شیئرز  کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا، نیز ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ حلال کاروبار کرنے والی جس کمپنی کے شیئرز خریدے جائیں اس کمپنی نے سود پر قرض نہ لیا ہو، اگر یہ معلوم ہو کہ اس کمپنی نے کسی بینک وغیرہ سے سود پر قرض لیا ہے تو ایسی صورت میں اس کمپنی کے شیئرز خریدنا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔

صحیح  بخاریمیں ہے:

"حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال: الذي حفظناه من عمرو بن دينار، سمع طاوسا، يقول: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما، يقول: أما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم "فهو الطعام أن يباع حتى يقبض"، قال ابن عباس: ولا أحسب كل شيء إلا مثله۔"

(باب بیع الطعام قبل ان یقبض: 1/ 286، ط؛ قدیمی)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: "لعن ‌رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء"۔

(كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله: 3/ 1219، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"قبض كل شیئ وتسليمه يكون بحسب ما يليق به۔"

(کتاب الوقف: 5/ 248، ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"ومنها أن یکون المبیع معلوما والثمن معلوما علما یمنع من المنازعة، فالمجهول جهالة مفضیة إلیها غیر صحیح۔"

(کتاب البیع: 5/ 260، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم "نهى عن بيع ما لم يقبض"، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع فيه غرر"۔

(کتاب البیوع: 5/ 180، ط؛ سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرط المعقود عليه ستة:  كونه موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وكون الملك للبائع فيما يبيعه لنفسه، وكونه مقدور التسليم فلم ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم... ولابیع معجوز التسلیم۔"

(کتاب البیوع، مطلب: شرائط البیع أنواع أربعة: 4/ 505،ط:سعید)

الدر مع الرد میں ہے:

"(وبیع ما لیس فیه ملکه) لبطلان بیع المعدوم۔ قال ابن عابدین: (قوله:وبیع مالیس فی ملکه)... بأن المراد بیع ماسیملکه قبل ملکه۔ قولہ: (لبطلان بیع المعدوم) إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجودا مالا متقوما مملوكا في نفسه، وأن يكون ملك البائع فیما یبیعه لنفسه، وأن یکون مقدور التسلیم۔"

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد،مطلب: الآدمی مکرم شرعا ولوکافرا: 5/ 58، 59، ط:سعید)

مجمع الأنہر میں ہے:

"جهالة المبیع والثمن مفسد للبیع۔"

(کتاب البیوع، باب الخیارات ،خیار الشرط: 3/ 46، ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں