بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شریک کا شرکاء کی اجازت کے بغیر مشترکہ چیز میں تصرف کرنا


سوال

میرے والد صاحب  کےانتقال (1998)  میں  ہوا تھا،مرحوم کے والدین  پہلے  انتقال کر چکے تھے، اس کےبعد میراث سب ورثا میں تقسیم ہوئی،ورثا میں  ایک بیوہ ، دو بیٹے،چار  بیٹیاں تھی، ہم چار بہنوں  کو    مشترک  طور پرایک  مکان ملا  جو پگڑی کا تھا،  اور   مرحوم ( والد )نے  اس مکان میں  تعمیراتی کام کر وایا    تھا،اور  اس کے بعد سب بہنوں کی اجازت سے ایک بہن اس میں رہائش پزیر ہوئی،2014 میں ایک بہن نے   اونر شپ کی معاملہ کی بات کی تو سب بہنوں نے  کہا  ٹھیک ہے، لیکن  یہ مکان سب  بہنوں کے نام کروانا ہے،تو مذکورہ بہن نے اس  بات پر خاموشی  اختیار کی ،  اور  مذکورہ بہن نے باقی بہنوں کو بتائے بغیر  اونر شب کا معاملہ مالک  مکان سے کیا،اور گھر اپنے نا م کر وا یا ، اس معاملے کی اطلا ع  باقی بہنوں کو نہ ہونے دی، اور مذکورہ بہن نے اس مکان میں اپنی ذاتی   رقم  سے کوئی کام نہیں کیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ یہ گھر کس کی  ملکیت ہے ،اور  ہم باقی بہنوں کو  اس گھر  میں کس حساب سے حصے ملیں گے۔

جواب

صورت مسئولہ میں  مرحوم ( والد )نے  اس مکان میں  تعمیراتی کام کر وایا    تھا ،اور بعد میں والد  کی متروکہ میراث کی تقسیم کے وقت مذکورہ پگڑی کا مکان سائلہ  سمیت مرحوم کی تین بیٹیوں کے حصے میں آیا، لہذا  مذکورہ پگڑی کے مکان میں  تمام (چاروں)بہنیں حصہ دار  ہیں، اور جب بھی ا س مکان  کو فروخت کیا جائے گاتو اس رقم کو چاروں بہنوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر  تقسیم کیا جائے گا، اور   ایک بہن کا دوسری بہنوں کی رضامندی کے بغیر خفیہ طریقے سے مکان کے اصل مالک سے اونر شپ کا معاملہ کرنا درست نہیں ہے

فتاوی شامی میں ہے:

" (وكل) من شركاء الملك (أجنبي) في الإمتناع عن تصرف مضر (في مال صاحبه) لعدم تضمنها الوكالة."

(الفتاوی الشامي،  کتاب الشرکة، ج:4  ص:300  ط: سعید)

فتاوی ہندیۃ  میں ہے:

"و لايجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه." 

( كتاب الشركة، الباب الأول في بيان أنواع الشركة وأركانها وشرائطها وأحكامها، الفصل الأول في بيان أنواع الشركة، ج:1 ص:301 ط: رشیدیة)

 فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب: لا يجوز الإعتياض عن الحقوق المجردة (قوله: لا يجوز الإعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها."

(کتاب البیوع، مطلب: فی الإعتیاض عن الوظائف والنزول عنها  ج :4  ص:518 ط : سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وهي ضربان: شركة ملك، وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا) أو حفظا كثوب هبه الريح في دارهما فإنهما شريكان في الحفظ قهستاني (أو دينا) على ما هو الحق."

( کتاب الشرکة، ج:4 ص:299  ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101392

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں