بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شریرجنات کو جلانے کا حکم


سوال

میں ایک عامل ہوں،جب بھی جنات انسانوں پرحملہ آور ہوتے ہیں،اس میں مردوخواتین وبچے سب شامل ہوتے ہیں، سب سے پہلے ہم ان کو تعویذاورچاشت(پانی میں تعویذ ملاکرپینے کو)دیتے ہیں،اگرجنات بند نہیں ہوجاتے،توتین چاردفعہ ایک تحریر(ابودجانہ رضی اللہ عنہ)کے نام سے دیتے ہیں،اگراس سے بھی کام نہ چلےتوہم ان کو جلادیتےہیں یعنی قتل کردیتے ہیں اوراس پرمعاوضہ لیتےہیں۔

جنات میں مسلمان اورکافر دونوں ہوتے ہیں،تنبیہ ہونے کے باوجود اگرنہ جائے توہم ان کو جلادیتے ہیں،لیکن اکثرتنبیہ ہونے کے بعد چھوڑدیتے ہیں،اب شریعت کی روسے جنات کو جلانااورقتل کرناجائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگرجنات سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوئی اورتدبیر کارآمد نہ ہواورمسلسل حملہ کرتےہوں توایسے جنات کو جلاناجائز ہے،بہتریہ ہے کہ اس تعویذ میں یہ عبارت لکھ دی جائے،اگرنہ جائے توجل جائے۔

امدادالفتاوی میں ہے: 

"سوال:اگربچہ یاعورت پرجن کاشبہ ہوتاہےتوعامل جن کو جلادیتے ہیں،آیاجن کو مارڈالنا جائز ہےیانہیں ؟

جواب : اگرکسی تدبیرسے پیچھانہ چھوڑےتودرست ہے،بہتریہ ہے کہ اس تعویذ میں یہ عبارت لکھدیں،اگرنہ جائے توجل جائے۔"

(تعویذات واعمال ج : 4 ص : 88،89 ط : ادارۃ المعارف کراچی)

فتاوی محمودیہ میں ہے: 

"سوال : جنات کو جلاسکتے ہیں یانہیں ؟

جواب : اگرکسی اورتدبیرسے پیچھانہ چھوڑے،بلکہ ستاتے ہی رہیں توجلانابھی درست ہے۔"

(باب مایتعلق بالجنات ج : 20 ص : 32 ط : ادارۃ الفاروق کراچی )

ارشاد باری تعالی ہے:

"وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ."

(سورة السبأ الآية: 12)

روح المعانی میں ہے:

"وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ... بِإِذْنِ رَبِّهِ بأمره عزّ وجلّ وَمَنْ ‌يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِناأي ومن يعدل منهم عما أمرناه به من طاعة سليمان عليه السّلام. وقرىء «‌يزغ» بضم الياء من أزاغ مبنيا للفاعل ومفعوله محذوف أي من يمل ويصرف نفسه أو غيره، وقيل مبنيا للمفعول فلا يحتاج إلى تقدير مفعول نُذِقْهُ مِنْ عَذابِ السَّعِيرِأي عذاب النار في الآخرة كما قال أكثر المفسرين وروي ذلك عن ابن عباس، وقال بعضهم: المراد تعذيبه في الدنيا.

روي عن السدي أنه عليه السّلام كان معه ملك بيده سوط من نار كل ما استعصى عليه جني ضربه من حيث لا يراه الجني.

وفي بعض الروايات أنه كان يحرق من يخالفه، واحتراق الجني مع أنه مخلوق من النار غير منكر فإنه عندنا ليس نارا محضة وإنما النار أغلب العناصر فيه."

(سورة السبأ ج : 11 ص : 292 ط : دارالكتب العلمية)

الاشباہ والنظائرمیں ہے:

" الأولى: ‌الضرورات تبيح المحظورات."

(القاعدة الخامسة ص : 73 ط : دارالكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403100506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں