زیدوحامد نے ملکرایک گاڑی 25 لاکھ روپے پرخریدلی ہرایک نے ساڑھے بارہ لاکھ روپے جمع کیے،اس کے کچھ عرصہ بعدزیدنے حامدکوبتاۓبغیر اپناحصہ نفع کے ساتھ بیچ دیاتوکیاشریک کو بتاۓ بغیر اپنا حصہ بیچناجائزہے؟
صورت مسئولہ میں زید اپنا حصہ فروخت کرنے میں خود مختار ہے اور اس کا اپنے شریک حامد کو اطلاع کیے بغیر اپنا حصہ کسی اجنبی کو فروخت کرنا شرعا درست ہے۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"كذلك لو كانت شاة أو فرس أو أموال أخرى مشتركة بين اثنين وباع أحدهما حصته لأجنبي فالبيع صحيح وليس للشريك إبطال هذا البيع. انظر المادة (5 1 2) سواء كانت هذه الأموال قابلة للقسمة أو لم تكن،وتعبير " البيع " الوارد في هذه الفقرة غير احترازي باعتبار إذ الحكم في الإخراج من الملك على الإطلاق هو على هذا المنوال."
(الکتاب العاشر :الشرکات،ج3،ص49،ط؛دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100224
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن