بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شریک کا دیگر شرکاء اور مشتری دونوں سے کمیشن لینے کا حکم


سوال

ایک پراپرٹی ڈیلر ہے اور ان کے ساتھ دو تین آدمی ایک پلاٹ میں شریک ہیں  ،تو پراپرٹی کا ڈیلر اپنے شرکا ء کو کہتا ہے کہ میں گاہک کو تلاش کروں گا زمین کے لیے اور اس کے بدلے تم سے کمیشن لوں گا اور مشتری کو بھی کہتا ہے کہ میں شرکاءسے بات کروں گا کہ جو زمین ہمارے درمیان مشترک ہے وہ شرکا آپ پرفروخت کریں ،لیکن میں تم سے تمام زمین کا کمیشن لوں گا۔ تو پراپرٹی ڈیلر کے لیے جو خود عقد نہیں کرتا ،بلکہ عقد ان کے شرکا کرتے ہیں ،اپنے شرکا اور مشتری سے تمام زمین کا کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں ؟حالانکہ اس زمین میں اس کا بھی حصہ ہے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں پراپرٹی ڈیلر کا اپنے شرکاء سے کمیشن لینا جائز نہیں ہے،نیز مشتری سے بھی صرف اپنے حصے کے علاوہ شرکاء کے حصے کا رابطہ کروانے کی بنا پر کمیشن لے سکتا ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلا لصيرورته شريكا۔۔۔ (ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر (كراهن استأجر الرهن من المرتهن) فإنه لا أجر له لنفعه بملكه۔۔۔ (قوله: فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة وهذه لا نظير لها إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لا ينعقد العقد."

  (کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ،6 /60،58،57 ، ط:سعید )

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين." 

(كتاب البيوع، فروع فى البيع،4،/560، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101521

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں