ہمارے یہاں ایک آدمی کا انتقال ہوا جس کی موت کا سبب شراب ہے اس شخص کی موت فطری ہے یا خود کشی؟
شراب پینا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ حدیث شریف میں شراب پینے والے کے بارے میں بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے دنیا میں شراب پی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنت کی شراب سے محروم فرمائیں گے۔ ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شراب تمام گناہوں کی جڑ ہے۔تاہم جو مسلمان شراب کا عادی گناہ گار ہو، یا شراب کے نشے میں اس کا انتقال ہوجائے تو مسلمان ہونے کی وجہ سے اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا، عام مسلمان اس کی نمازِ جنازہ ادا کرلیں، علماءِ کرام اور مقتدا لوگ عبرت کے لیے اس کا جنازہ نہ پڑھیں تو اجازت ہوگی۔تاہم شراب کو بطور نشہ کے لیے استعمال کرتے ہیں جو اگرچہ ناجائز حرام اور گناہ ہے،لیکن کوئی بھی شخص اس سے اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے نہیں پیتابلکہ نشہ کے لیے پیتا ہے اور وہی کبھی جان لیوا ثابت ہو جاتی ہے، لہذا اس کو خود کشی نہیں طبعی موت ہی کہا جائے گا۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} [المائدة: 90]
ترجمہ: اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بُت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو اس سے بالکل الگ رہو؛ تاکہ تم کو فلاح ہو۔
(بیان القرآن، ج: 3، صفحہ: 57، ط: مکتبۃ الحسن لاہور)
حدیث شریف میں ہے:
"حدثنا وكيع بن الجراح، عن عبد العزيز بن عمر، عن أبي علقمة، مولاهم وعبد الرحمن بن عبد الله الغافقي، أنهما سمعا ابن عمر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لعن الله الخمر، وشاربها، وساقيها، وبائعها، ومبتاعها، وعاصرها، ومعتصرها، وحاملها، والمحمولة إليه»."
(سنن أبي داود، باب العنب يعصر للخمر، ج: 3، صفحہ: 326، رقم الحدیث: 3674، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)
سنن ترمذی میں ہے :
"حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل مسكر خمر، وكل مسكر حرام، ومن شرب الخمر في الدنيا فمات وهو يدمنها لم يشربها في الآخرة»."
(سنن الترمذي، باب ما جاء في شارب الخمر، ج: 1، 290،رقم الحدیث: 1861، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للكاساني میں ہے:
"وأما بيان من يصلى عليه فكل مسلم مات بعد الولادة يصلى عليه صغيرًا كان، أو كبيرًا، ذكراً كان، أو أنثى، حرًّا كان، أو عبدًا إلا البغاة وقطاع الطريق، ومن بمثل حالهم لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «صلوا على كل بر وفاجر» وقوله: «للمسلم على المسلم ست حقوق» وذكر من جملتها أن يصلى على جنازته من غير فصل إلا ما خص بدليل، والبغاة ومن بمثل حالهم مخصوصون لما ذكرنا."
(کتاب الصلاۃ، فصل بيان فريضة صلاة الجنازة وكيفية فرضيتها، ج: 1، صفحہ: 311، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144504101025
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن