اگر حکومت یا حاکم وقت کے توسط سے قصاص لینے کی کوشش کریں گے تو ظاہر ہے کہ آج کل عدالتوں میں مختلف قسم کے مسئلے مختلف مراحل سے گزرتےہیں ، جس کی وجہ سے مقتول کے ورثاء کو اپنا حق لینا تو درکنار بلکہ ساتھ میں کیس اور وکلاء کے ذریعے عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر بھاری رقم ادا کرنی پڑتی ہے،اور آخر میں قاتل بھی بری ہو جاتا ہے، خاص کر جب کہ قاتل مالدار ہوتووہ چند دن میں بری ہو کر مقتول کے ورثا کے لیے تاحیات اذیت کا سبب بنتا رہتا ہے۔
اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے مقتول کے اولیاء کو اپنی طرف سے قصاص لینے کا حق ہے؟
اور اگر کسی قاتل کو ماورائے عدات قصاصاًقتل کیاجائے تو کیا ایسا شخص عنداللہ ماخوذہوگا؟
کسی انسان کا قتل ناحق اسلام میں ایسا سخت ترین گناہ کبیرہ جس کی سزا دائمی جہنم ہے، خدانخواستہ اگر کسی شخص نے قتل کردیا تو ایسی صورت میں مقتول کے اولیا عدالت سے رجوع کرکے انصاف حاصل کریں گے اور قانون کے مطابق قاتل کو سزا دلوائی جائے گی، مقتول کے ورثا از خود انتقاما قاتل کو ہرگز قتل نہیں کرسکتے کیوں کہ انہیں حدود اور قصاص کے نفاذ کا حق نہیں ۔
حکومت اگر اپنے فرائض میں کوتاہ رہے تو اس سے عوام کے لیے ناجائز اقدامات کا جواز پیدا نہیں ہوتا ،پس مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اگر آج اس دنیا میں خدانخواستہ اس کو انصاف نہیں ملا تو کل روزقیامت ضرور اس کے ساتھ مکمل عدل وانصاف کیا جائے اور جو لوگ اس انصاف کی راہ میں حائل بنین گے، ان سے بھی سخت باز پرس ہوگی ۔
الدرالمختارمیں ہے:
"الإمام شرط استيفاء القصاص كالحدود عند الأصوليين.وفرق الفقهاء أشباهه."
(كتاب الجنايات، فصل فيما يوجب القود وما لا يوجبه، ج:6، ص:559، ط:سعيد)
الفقہ الاسلامی ادلتہ میں ہے:
"8 - استيفاء الحدود يكون بواسطة الإمام الحاكم، وأما القصاص فيجوز لولي الدم استيفاؤه بشرط وجود الحاكم."
(القسم الخامس، الباب الثالث، النوع الاول، ثالثا ـ الفرق بين القصاص والحدود الأخرى، ج:7، ص:5664، ط:دار الفكر)
تفسیرخازن میں ہے:
"وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً،أي قوة وولاية على القاتل بالقتل وقيل: سلطانه هو أنه يتخير فإن شاء استقاد منه وإن شاء أخذ الدية وإن شاء عفا."
(سورة الإسراء (17): الآيات 26 الى 38،ج:3، ص:129، ط:دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603101992
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن