بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرم گاہ میں انگلی داخل کرنے کی صورت میں روزے کا حکم


سوال

ایک عورت اپنی شرم گاہ میں کتنی حد تک انگلی داخل کرسکتی ہے جس سے روزہ نہیں ٹوٹتا؟

آج کل جدید اطباء کی کیا رائے ہے کہ شرم گاہ اور معدے کا راستہ الگ الگ ہے ؟

اور ایک عورت کو اس مسئلے کی معلومات نہ ہوں تو وہ کیا کرے؟

اور روزوں کی تعداد بھی معلوم نہ ہو تو اب کیا کریں؟

جواب

واضح رہے کہ شرم گاہ میں انگلی داخل کرنے سے روزہ ٹوٹنے کا مدار دو امور پر ہے:

1۔ روزے سے ہونا یاد ہو۔

2۔ انگلی گیلی ہو، خشک نہ ہو۔

پس ایسی روزہ دار خاتون  جسے اپنا روزے سے ہونا یاد بھی  ہو  اور وہ گیلی انگلی (خواہ پانی سے ہو، یا تیل یا  دوائی، یا شرم گاہ کی اندرونی رطوبت سے انگلی تر ہو)  اپنی  شرم گاہ میں داخل کرے، تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا، صرف قضا لازم ہوگی،  کفارہ لازم نہ ہوگا، البتہ  اگر روزے کی حالت میں خشک انگلی ڈالے تو اس سے روزہ فاسد نہ ہوگا، تاہم ایک مرتبہ داخل کرکے نکالنے کے بعد واپس وہی انگلی شرم گاہ میں ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔

ملحوظ رہے کہ شرم گاہ کے اوپری حصہ (جسے فرج خارج کہا جاتا ہے)  پر آبِ دست (استنجا کے وقت دھونے) کے دوران گیلی انگلی  لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، مذکورہ حکم فرج داخل (اندرونی شرم گاہ) سے متعلق ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو أدخل أصبعه في استه أو المرأة في فرجها لايفسد، وهو المختار، إلا إذا كانت مبتلةً بالماء أو الدهن فحينئذ يفسد؛ لوصول الماء أو الدهن، هكذا في الظهيرية. هذا إذا كان ذاكرا للصوم، وهذا تنبيه حسن يجب أن يحفظ؛ لأن الصوم إنما يفسد في جميع الفصول إذا كان ذاكراً للصوم، وإلا فلا، هكذا في الزاهدي."

( كتاب الصوم، الباب الرابع فيما يفسد وما لا يفسد، النوع الأول ما يوجب القضاء دون الكفارة، ١ / ٢٠٤، ط: دار الفكر)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّمیں ہے:

"لو أدخلت الصائمة أصبعها في فرجها أو دبرها لا يفسد على المختار إلا أن تكون مبلولةً بماء أو دهن.

(قوله: إلا أن تكون مبلولةً بماء أو دهن) أي فإنه يفسد إن كانت ذاكرةً صومها، قلت: وهذا تنبيه حسن يجب أن يحفظ؛ إذ الصوم إنما يفسد في جميع الفصول إذا كان ذاكراً للصوم وإلا فلا اهـ دراية."

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ١ / ٣٣٠، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة )

2۔ جسم کے منافذِ خلقی (ناک، کان، منہ، آگے پیچھے کی شرم گاہ) کے راستوں سے جسم میں کسی چیز کا داخل ہونا، مفسداتِ  صوم (روزہ توڑنے کے اسباب) میں سے ہے۔ اطباء کی آراء مختلف ہوں تو بھی مذکورہ مسئلے پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔

3۔ جواب کے جزء نمبر 1 میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق اگر روزہ فاسد ہوئے ہوں تو ان روزوں  کی قضا لازم ہوگی، البتہ اگر تعداد یاد نہ ہو تو یاد کرنے کی کوشش کرے، غالب گمان  کے مطابق تعداد متعین کرکے اتنے روزوں کی قضارلے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں