بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شراکت میں سفرکےاخراجات


سوال

1: مسئلہ یہ ہے کہ میں نے ایک عزیز کے ساتھ شراکت پے کاروبار شروع کیا ،شروع میں ہم نے ڈیفینس میں ایک دکان لی، پھر جب کام شروع ہوگیا تو اسی شراکت پے ہی محمودآباد میں ایک اور دکان لی، ڈیفینس والی میں میں بیٹھ رہا ہوں، اور  وہ محمودآباد والی میں،محمودآبادوالی دکان ہماری رہائش سے پانچ منٹ کی دوری پر ہے ،جب کہ ڈیفینس والی دکان دور پڑتی ہے، اور میں بائیکیا میں دکان آنا جانا کرتا ہوں ،تو مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ آیا بائیکیا کے آنے جانے کا جو خرچہ ہے وہ شراکت کے حساب میں لگایا جائےگا یا اس کا بوجھ مجھ پر  آئے گا؟

2:  دکان تو دونوں کی ہے ،تو دونوں دکانوں کا آنے جانے کا جو خرچہ ہے وہ شراکت میں شمار ہوگا یا نہیں؟ جب کہ وہ اپنی بائیک پے جاتے ہیں ،اور محمودآباد کی دکان بالکل ایک کلو میٹر کی دوری پر ہے جب کہ میں بائیکیا میں جاتا ہوں، اور ڈیفینس کی دکان کافی دور ہے، جس کی وجہ سے روزانہ اوسطاً تین سوروپے کا خرچہ آتا ہے اور ماہانہ نو ہزارکا، تو اگر دونوں دکانوں کے آنے جانے کا خرچہ لگایا جائے تو جو اپنی بائیک پے دکان جاتاہے،ان کا اسی اپنی بائیک کے حساب سے خرچہ ڈالا  جائے گا یا ان کا بھی بائیکیا کے حساب سے لگایا جائے؟

جواب

1: واضح رہے کہ شرکت میں  تمام وہ امورجوتاجروں کی عرف میں تجارت کےلیے ضروری سمجھے جاتے ہیں ان سب کےاخراجات کومشترکہ شراکت داری ہی سےشمارکیاجاتاہے،لِہذاصورتِ مسئولہ میں  سائل اوراس کےپارٹنرکاجتناخرچہ دکان تک آنےجانے میں (ذاتی کاموں کےعلاوہ )کاروبارکےلیےہوتاہےان سب کومشترکہ کاروبارسےہی شمارکیاجائےگا۔

2: چوں کہ دونوں دکان مشترک ہیں ،لہذاسائل کی آمدورفت کےاخراجات کےساتھ سائل کےپارٹنرکی آمدورفت میں بائیک کےاخراجات (پٹرول وغیرہ) کاخرچہ بھی شامل کیاجایےگا،جس کاطریقہ  یہ ہے کہ حساب کےوقت دونوں خرچوں (سائل اورسائل کےپارٹنرکےخرچہ)کوجمع کرکےاگرشراکت میں نفع ہواہو تونفع سےورنہ اصل سرمایہ سےمنہاکرکےبقیہ مال کوتقسیم کیاجائے۔

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"(سئل) فيما إذا سافر أحد شركاء العنان بمال الشركةبإذن البقية فهل تكون نفقته وطعامه وركوبه في مال الشركة؟(الجواب) : نعم وفي مضاربة المنح الشريك إذا سافر بمال الشركة لا نفقة له لأنه لم يجر التعارف به ذكره النسفي في كافيه وصرح في النهاية بوجوبها في مال الشركة اهـ ومثله في العلائي وذكر في التتارخانية عن الخانية قال محمد - رحمه الله تعالى - هذا استحسان اهـ أي وجوب النفقة في مال الشركة وحيث علمت أنه الاستحسان فالعمل عليه لما علمت أن العمل على الاستحسان إلا في مسائل ليست هذه منها خير الدين على المنح وفي المنح من الشركة ومؤنة السفر والكراء من رأس المال."

(شرکۃ العنان ،ج:1،ص:91،ط:دارالمعرفہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100402

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں