بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شراکت داری کی ایک صورت کا حکم


سوال

 کسی کے ساتھ مشترکہ طور پر پراپرٹی کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنا چاہتا ہوں، جس میں دونوں فریق سرمایہ لگائیں گے، دوسرا فریق صرف سرمایہ لگائے گا جبکہ میں سرمایہ لگانے کے ساتھ پراپرٹی ڈھونڈنے اور اسی سلسلے میں پراپرٹی کو جا کر دیکھنا، اس کی معلومات کرنا اور قیمت کا تعین وغیرہ کرکے خریدنا اور بعد میں فروخت کرنا میرے ذمہ ہے، دونوں فریقین کے درمیان معاہدہ ہوا ہے کہ صرف سرمایہ لگانے والا فریق %60 سرمایہ لگائے گا، اور میں %40 سرمایہ لگاؤں گا، جبکہ نفع دونوں فریقین کے درمیان برابر تقسیم ہوگا، کیا ایسی شرکت داری میں کوئی قباحت تو نہیں ہے اور اگر ہے تو کیا ہے؟ اور اس کاروبار میں خدانخواستہ کوئی نقصان ہوگا تو کیا وہ بھی برابر تقسیم کیا جائے گا یا سرمایہ کے حساب سے %60 -%40 تقسیم ہوگا، اس کی وضاحت فرما دیجیئے۔

جواب

صورت مسئولہ میں فریقین کے مابین شراکت داری سے متعلق جس صورت پر معاہدہ ہوا ہے، یہ صورت شرعاً جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں، البتہ اگر مذکورہ شراکت داری میں نقصان ہوتا ہے تو وہ نقصان ہر شریک پر بقدر سرمایہ / تناسب کے تقسیم ہوگا۔

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"(وأما ‌شركة ‌العنان) فهو أن يشترك الرجلان برأس مال يحضره كل واحد منهما، ولا بد من ذلك، إما عند العقد، أو عند الشراء حتى أن الشركة لا تجوز برأس مال غائب، أو دين."

(كتاب الشركة: 11/ 152، ط: دار المعرفة، بيروت)

الفقه الإسلامي وأدلته میں ہے:

"شركة العنان وهي أن يشترك اثنان في مال لهما على أن يتجرا فيه والربح بينهما ، وهي جائزة بالإجماع كما ‌ذكر ‌ابن ‌المنذر."

(‌‌‌‌القسم الثالث: العقود أو التصرفات المدنية المالية، الفصل الخامس: الشركات‌‌، المطلب الأول، شركة العنان: 4/ 797، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(وإما عنان إن تضمنت وكالة فقط) بيان لشرطها (فتصح من أهل التوكيل) كصبي ومعتوه يعقل البيع (وإن لم يكن أهلا للكفالة) لكونها لا تقتضي الكفالة بل الوكالة. (و تصح) عاما وخاصا ومطلقا ومؤقتا و (مع التفاضل في المال دون الربح وعكسه، وببعض المال دون بعض... وإن تفاوتت قيمتهما والربح على ما شرطا (و) مع (عدم الخلط) لاستناد الشركة في الربح: إلى العقد لا المال فلم يشترط مساواة واتحاد وخلط. قال ابن عابدین: (قوله: والربح على ما شرطا) أي من كونه بقدر رأس المال أو لا... وقيد بالربح؛ لأن الوضيعة على قدر المال وإن شرطا غير ذلك كما في الملتقى وغيره... قوله: فلم يشترط إلخ) تفريغ على قوله ومع التفاضل وما عطف عليه."

(‌‌كتاب الشركة، مطلب في شركة العنان: 4/ 311، 314، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101729

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں