بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعی مسجد کے اس حصے پر چپل سمیت پھرنا جو نئی تعمیر میں آنے سے رہ جائے


سوال

بلوچستان کے مضافات میں ایک مسجد تھی جس میں لوگ باقاعدہ باجماعت نماز ادا کرتے تھے، بعد میں اس مسجد کو شہید کر کے اسی جگہ پر ایک خوب صورت اور پکی مسجد تعمیر کردی گئی، مگر مسئلہ یہ ہے کہ نئی مسجد تعمیر کرنے کے بعد اس زمین کا کچھ حصہ نئی مسجد میں آنے سے رہ گیا ہے جس زمین پر قدیم مسجد قائم تھی، قدیم مسجد کے اس حصے پر اب لوگ چپلوں اور جوتوں کے ساتھ چلتے پھرتے ہیں، کیا اس زمین پر چپلوں اور جوتوں سمیت چلنا پھرنا صحیح ہے؟ اگر نہیں تو اب اس زمین کے ساتھ کیا کیا جائے؟

جواب

واضح رہے کہ جو جگہ ایک دفعہ  شرعی مسجد کی حدود میں داخل ہوجائے وہ جگہ قیامت تک مسجد کے حکم میں ہی رہتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر پرانی مسجد باقاعدہ وقف شدہ شرعی مسجد تھی تو زمین کا جو حصہ اس وقت شرعی مسجد کا حصہ تھا اور اب وہ حصہ نئی مسجد میں آنے سے رہ گیا ہے، تو زمین کے اس حصے کا بھی ایسا ہی ادب و احترام لازم ہے جیسا کہ نئی مسجد کی حدود میں آنے والی زمین کا ہے، لہٰذا لوگوں کا زمین کے اس حصے پر چپلوں اور جوتوں سمیت چلنا پھرنا غلط ہے، کیوں کہ اس سے مسجد کی زمین کی بے ادبی لازم آتی ہے۔مسجد کی انتظامیہ پر لازم ہے  کہ اگر زمین کے اس حصے کو کسی بھی طرح مسجد کی نئی تعمیرمیں شامل کرنا ممکن ہو تو اسے نئی تعمیر میں شامل کرلیا جائے، لیکن اگر اس حصے کو نئی تعمیرمیں شامل کرنا ممکن نہ ہو تو لوگوں کو اس حصے کے ادب و احترام کا اہتمام کرنے کی تاکید کریں اور اس حصے پر کوئی ایسی علامت دیوار وغیرہ بنا دیں جس کی وجہ سے مسجد کا تقدس برقرار رہے اور اگر اس حصے پر نماز کی جگہ بنا کر نماز پڑھنا ممکن ہو تو ضرور ایسا کیا جائے تا کہ اس حصے پر  نماز پڑھنا ممکن ہو۔ 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) حاوي القدسي.

(قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه مجتبى وهو الأوجه فتح. اهـ. بحر قال في الإسعاف وذكر بعضهم أن قول أبي حنيفة كقول أبي يوسف وبعضهم ذكره كقول محمد".

(كتاب الوقف،4/ 358،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100687

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں