بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شراب اور جوئے میں مبتلا شوہر سے خلع لینا


سوال

میں امریکا میں رہتی ہوں، میری شادی 16 سال کی عمر میں میرے کزن سے زبردستی ہوئی ہے، جو میری پھپھو کے بیٹے ہیں،  مجھ سے پہلے ان کی دوسری کزن سے منگنی تھی، میں بچپن سے امریکا میں رہتی ہوں، میری پوری فیملی امریکا میں ہے، میری پھپھو نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ اپنی بیٹی سے شادی کرکے میرے بیٹے کو امریکا لے جاؤ، اس کے بعد وہ اسے طلاق دے دے گا تو میری امی نے کہا کہ نہیں شادی کر لو طلاق نہیں دو۔ میں نے اپنے نکاح میں سَر بھی نہیں ہلایا، میرا زبردستی سَر ہلایا گیا، میرے سسرال کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، یہ لوگ جادو وغیرہ میں بھی رہتے ہیں، جب رشتے کے لیے بات ہوئی تو میری فیملی نے چپ چاپ ہاں کردی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ  انہوں نے پہلی منگنی اسی لیے ختم کی؛ تاکہ یہ مجھ سے شادی کر کے امریکا آسکیں اور میرے گھر والوں پہ پریشر ڈالنا شروع کردیا۔ شادی کے وقت  میری  عمر صرف 16 سال تھی اور ان کی 29 سال، میں اِس شادی کے حق میں نہیں تھی؛ کیوں کہ میں نے انہیں ہمیشہ بڑا بھائی سمجھا ہے، شادی کے بعد ان سے وہ تعلق نہیں بن سکا جو ایک شوہر اور بِیوِی کا ہونا چاہیے، میرے 2 بچے بھی ہیں، ایک بیٹی اور ایک بیٹا۔

خیر شادی کے بعد میں نے نبھانے کی کوشش کی، لیکن میرے شوہر امریکا آ کے شراب اور جوئے میں مبتلا ہوگئے، گھر والوں کو بھی پتا ہے، وہ کچھ کہتے نہیں، بس یہی سننے کو ملتا ہے، گزارا کرو۔ اُس پر بھی میں نے خاموشی رکھی اور میرے شوہر نے اس بات کا فائدہ اْٹھایا کہ گھر والے تو سپورٹ کرتے نہیں، جو کرنا ہے کرو۔آج کل کرونا کی وجہ سے جوئے کے اڈے اور شراب خانے بند ہیں  تو یہ رکے ہوئے ہیں،  جیسے ہی کھلے گا اور شاید کھلنا بھی شروع ہوگئے ہیں، یہ پھر سے شروع کر دیں گے، میں بہت پریشان ہوگئی ہوں، میرے اوپر قرضہ ہو گیا ہے، پاکستانی 30 لاکھ سے اوپر، سب انہوں نے جوئے اور شراب میں لگادیا۔ میں نے مجبور ہو کر نوکری شروع کی ہے اور میں اپنے بچوں کو اپنی نوکری سے کھلاتی ہوں اور قرضہ بھی اتار رہی ہوں۔ میں اب الگ ہونا چاہتی ہوں؛ کیوں کہ  اِس انسان نے ٹھیک نہیں  ہونا۔ اِس ٹینشن کی وجہ سے مجھے ڈپریشن ہونے لگا ہے۔میرے پورے خاندان کو پتا ہے، ہمارا وہ رشتہ نہیں جو ایک شوہر اور بِیوِی کا ہونا چاہیے۔ اب مجھے آپ بتائیں شریعت اِس معاملے میں کیا کہتی ہے؟ کیا میں خلع لے سکتی ہوں یا نہیں؟!

میں نے کوشش بہت کی نبھانے کی، پر اب تھک چکی ہوں، پوری طرح دِل کرتا ہے بس مرجاؤں اور جان چھوٹے اِس زندگی سے۔ اب آپ شرعی اعتبار سے بتائیں میرا خلع  لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

آپ کے حالات پڑھ کر افسوس ہوا، اللہ تعالیٰ آپ کے حالات بہتر بنائے، آپ کے شوہر کو راہِ راست پر آنے  کی توفیق دے اور آپ کو ان پریشانیوں سے چھٹکارا نصیب فرمائے! 

یہ یاد رہے کہ نکاح کے معاملہ میں عاقلہ بالغہ لڑکی پر جبر اور زبردستی کا شرعاً کسی کو حق نہیں ہے، اگر لڑکی قولاً یا فعلاً نکاح کو قبول نہ کرے اور نہ اجازت دے، نہ کسی کو وکیل بنائے تو جبری طور پر نکاح کرنے سے نکاح منعقد نہیں ہوتا، لیکن اگر لڑکی قولاً یا فعلاً نکاح کی اجازت دے دے،اگرچہ دل میں راضی نہ ہوتو یہ نکاح منعقد ہوجاتاہے، لہذا آپ کے سَرہلانے اور نکاح کو قبول کرنے سے یہ نکاح تو منعقد ہوچکا تھا، اگرچہ آپ دل سے اس پر راضی نہیں تھیں، نکاح کے بعد شریعت کا حکم یہ ہے کہ میاں بیوی پیار ومحبت اور سکون سے رہیں، دونوں میں اعتماد کی فضا ہو اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں، شوہر بیوی کے حقوق اور بیوی شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کمی کوتاہی نہ کرے۔ لیکن آپ نے اپنے شوہر کا جو رویہ لکھا ہے کہ وہ جوئے اور شراب میں مبتلا ہوچکے ہیں اور ان کی وجہ سے آپ مقروض ہیں اور شوہر گھر کا خرچہ بھی ادا نہیں کرتا، اگر شوہر حقیقتاً ان کاموں میں مبتلا ہے اور اپنے اہل و عیال کا نان نفقہ ادا نہیں کرتا تو وہ سخت ظالم اور شریعت کی نگاہ میں مجرم ہے، اگر یہ اپنے ان مظالم سے باز نہیں آتا تو ان کا بدلہ دنیا میں بھی بھگتے گا اور آخرت میں بھی۔

فوری طور پر علیحدگی یا خلع لینے کے بجائے   آپ اپنے شوہر کو   اچھے انداز اور نرمی سے سمجھانے کی کوشش کریں اور ساتھ اس کے لیے روزانہ دو رکعت صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ سے دعا بھی کرتی رہیں کہ  اللہ تعالیٰ اس کی اس بُری عادت کو ختم کردے۔ جہاں تک ہو سکے اپنا گھر بسانے کی کوشش کریں اور آپ اپنے خاندان کے بزرگوں اور بڑوں کے سامنے یہ مسائل رکھیں کہ وہ آپ کے شوہر کو سمجھائیں؛ تاکہ وہ ان بری عادتوں سے باز آجائے اور اہل وعیال کے نان ونفقہ کا انتظام کرے۔

لیکن اگر ان ساری کوششوں یعنی آپ کے سمجھانے اور خاندان کے لوگوں کے سمجھانے کے باوجود شوہر نان و نفقہ نہ دینے پر آمادہ نہ ہو اور باہمی نباہ کی کوئی صورت باقی نہ رہے، تو پھر علیحدگی کی اجازت ہوگی۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ خلع کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر  بیوی  عدالت سے خلع یا طلاق لے لے اور عدالت اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا، اور ایسی صورت میں عورت کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوتا۔

البتہ بعض مخصوص حالات میں قاضی  شرعی کو یہ  اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ  شوہر کی اجازت کے بغیر بھی  میاں بیوی میں تفریق کرسکتا ہے، اس لیے کہ   نکاح کے بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں  جو  نکاح کے مصالح  اور مقاصد میں سے ہیں اور قضاءً اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے،  اگر شوہر ان کی ادائیگی نہ کرے تو بزورِ عدالت انہیں وصول کیا جاسکتا ہے،ان حقوق میں نان ونفقہ اور حقوق زوجیت وغیرہ شامل ہیں۔

لہذاساری کوششوں کے باوجود اگر شوہر اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں لاتا اور  نان و نفقہ  دینے پر راضی نہیں ہوتا  تو ایسی صورت میں آپ  اپنے  شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرکے کسی طرح طلاق حاصل کرلیں، اور اگر وہ طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو  باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرلیں،  اور خلع میں شوہر کے لیے بدلِ خلع یعنی خلع کے عوض مال لینا جائز نہ ہوگا،  تاہم لینے کے باوجود خلع ہوجائے گا اور نکاح ختم ہوجائے گا۔

لیکن اگر شوہر نہ طلاق دے اور نہ ہی خلع  دینے پر رضامند ہو اور نان ونفقہ دینے پر بھی تیار نہ ہو تو   سخت مجبوری کی حالت میں  عدالت سے تنسیخِ نکاح کرایا جاسکتا ہے،  جس کی صورت یہ ہے کہ  عورت اپنا مقدمہ مسلمان جج کے سامنے  پیش کرے، اور متعلقہ جج  شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ  معاملہ کی  پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ  صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر  باوجود  وسعت کے  خرچہ نہیں دیتا تو اس کے  شوہر سے کہا جائے کہ  عورت کے حقوق ادا کرو یا  طلاق دو،  ورنہ ہم تفریق کردیں گے،  اس کے بعد بھی اگر  وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو عورت پر طلاق واقع کردے۔ شوہر اگر طلاق یا خلع پر راضی نہ ہوتو کسی مسلمان قاضی یا جج کے ذریعہ مذکورہ طریقے کے مطابق نکاح فسخ کروایاجاسکتاہے۔ (ماخوذ از حیلہ ناجزہ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت)

اگر کسی وجہ سے مسلمان جج کی عدالت میں مقدمہ پیش کرکے فیصلہ کروانا ممکن نہ ہو تو  اپنا مقدمہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے سامنے پیش کریں، اس جماعت کے ارکان دین دار متقی ہوں، دینی بصیرت رکھتے ہوں اور دینی تقاضوں کو سمجھتے ہوں، ایک دو  ان میں مستند عالمِ دین بھی ہوں، یہ حضرات صورتِ حال کی تحقیق کریں اور بذاتِ خود شوہر کو مطلع کریں، اگر شوہر نان و نفقہ اور حقوق ادا کرنے پر آمادہ نہ ہو تو یہ جماعت سائلہ پر طلاق واقع کردے، اس کے بعد آپ عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہیں۔

جو جماعت فیصلہ کرے ان حضرات کو چاہیے کہ اس سلسلے کی تمام قیود اور شرائط کتاب " الحیلۃ الناجزہ" سے معلوم کرکے فیصلہ کرے اور ارکانِ جماعت کم از کم تین ہوں۔ فقط واللہ اعلم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201322

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں