بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شراب نہ پینے کی نذر کو جنت میں نکاح نہ کرنے کے ساتھ معلق کرنا


سوال

 ایک شخص بہت زیادہ شراب پیتا ہے تو ایک دن اس نے قسم اٹھائی کہ " اگر آئندہ سے میں شراب پیوں گا تو میں اپنی عورت سے جنّت میں نکاح نہیں کروں گا " اس جملے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قسم منعقد ہونے  کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ قسم ایسی چیز کی ہو جس کا وقوع پذیر ہونا حقیقت میں ممکن بھی ہو، جب کہ اپنی بیوی سے جنت میں دوبارہ نکاح نہیں ہوگا، بلکہ دنیا والے نکاح کی وجہ سے ہی وہ بیوی جنت میں بھی ساتھ ہوگی۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ شخص کا یہ قسم کھانا کہ اگر  آئندہ سے میں شراب پیوں گا تو میں اپنی عورت سے جنّت میں نکاح نہیں کروں گا" یہ قسم منعقد ہی نہیں ہوئی۔

البتہ شراب چھوڑ دینا اور آئندہ شراب پینے سے سخت اجتناب کرنا اس شخص پر  لازم  ہے، چاہے اس کو ترک کرنے کی قسم کھائے یا نہیں؛ اس لیے کہ شراب پینا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔  حدیث شریف  میں  شراب  پینے  والے  کے  بارے  میں  بہت  سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور  ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  جس  نے  دنیا  میں  شراب  پی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے جنت کی شراب سے محروم فرمائیں گے۔ ایک اور موقع  پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شراب تمام گناہوں کی جڑ ہے۔

بدائع میں ہے:

"مِنْهَا) أَنْ يَكُونَ مُتَصَوَّرَ الْوُجُودِ فِي نَفْسِهِ شَرْعًا، فَلَايَصِحُّ النَّذْرُ بِمَا لَايُتَصَوَّرُ وُجُودُهُ شَرْعًا."

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، كتاب النذر، [ بَيَانِ رُكْنِ النَّذْرِ وَشَرَائِطُهُ] صفحة -82،ج : 5، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت)

«المفردات في غريب القرآن» میں ہے:

"و قوله: ‌وَزَوَّجْناهُمْ ‌بِحُورٍ ‌عِينٍ [الدخان/ 54] ، أي: قرنّاهم بهنّ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلك لايكون على حسب المتعارف فيما بيننا من المناكحة."

((ص385)،المؤلف: أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (ت ٥٠٢ھ)،الناشر: دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت)

تفسير البغوي  میں ہے:

"كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ} أَيْ كَمَا أَكْرَمْنَاهُمْ بِمَا وَصَفْنَا مِنَ الْجَنَّاتِ وَالْعُيُونِ وَاللِّبَاسِ كَذَلِكَ أَكْرَمْنَاهُمْ بِأَنْ زَوَّجْنَاهُمْ، {بِحُورٍ عِينٍ} أَيْ قَرَنَّاهُمْ بِهِنَّ، لَيْسَ مَنْ عَقْدِ التَّزْوِيجِ، لِأَنَّهُ لَايُقَالُ: زَوَّجْتُهُ بِامْرَأَةٍ، قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: جَعَلْنَاهُمْ أَزْوَاجًا لَهُنَّ كَمَا يُزَوِّجُ الْبَعْلُ بِالْبَعْلِ، أَيْ جَعَلْنَاهُمُ اثْنَيْنِ اثْنَيْنِ."

(سورہ دخان،(7/ 237)،ط: دار الطيبة، بیروت) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307100170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں