بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شراب کی فیکٹری میں ملازمت کرنے والے کی کمائی کا حکم


سوال

 زید شراب کی فیکٹری میں ملازمت کرتا ہے اور ملازمت کی نوعیت یہ ہے کہ وہ مشین پر چلنے والی شراب کی بوتلوں پر ڈھکن لگاتا ہے۔

 سوال یہ ہے کہ اس شخص کی کمائی حلال ہے یا حرام؟ اور اس شخص کے ہدایا اور تحائف کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر اس شخص نے اپنے مال سے حج ادا کر لیا تو فریضہ ساقط ہوگا یا نہیں؟ مزید اس شخص کے مال میں زکوۃ فرض ہوگی یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں  زید کے لیے شراب کی فیکٹری میں کام کرنا اور شراب کی بوتلوں پر ڈھکن لگانا جائز نہیں ہے ، نیز اس ملازمت سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہے۔  احادیثِ مبارکہ میں شراب پینے والے ،  پلانے والے، اسے بنانے والے، اسے بیچنے والے، اسے خریدنے والے، اسے بنانے کا آرڈ دینے والے، اسے اٹھا کر لے جانے والے اور جس کے پاس لے جائی جارہی ہو اور خود شراب  پر بھی اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔

حرام کمائی والے شخص سے ہدایا اور تحائف لینا جائز نہیں ہے ۔ 

حرام  کمائی  کی رقم سے حج یا عمرہ کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی نے کرلیا تو ایسا حج یا عمرہ ادا تو ہوجائے گا، تاہم ثواب سے خالی ہوگا، لہذا حلال و پاکیزہ رقم سے ہی حج یا عمرہ ادا کیا جائے۔

مال حرام اگر بغیر عمل کے حاصل ہو اوراصل مالک معلوم ہوتو اس کو واپس کرنا لازم ہے ، اور اگر مالک معلوم نہ ہو یا وہ مال حرام کسی عمل کے عوض حاصل ہوا ہو تو ثواب کی نیت کے بغیر سارا مال صدقہ کردیا جائے ، مال حرام پر زکاۃ نہیں ہے ۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإثْمِ وَالْعُدْوَانِ) يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل."

(سورة المائدۃ، 12/2، ط: دار الطیبة)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أنس بن مالك قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌في ‌الخمر ‌عشرة: عاصرها، ومعتصرها، وشاربها، وحاملها، والمحمولة إليه، وساقيها، وبائعها، وآكل ثمنها، والمشتري لها، والمشتراة له."

(أبواب البيوع، باب النهي عن أن يتخذ الخمر...2 / 580، ط: دار الغرب الإسلامي - بيروت) 

ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے شراب کے بارے میں ان دس افراد پر لعنت فرمائی ہے: شراب نچوڑنے والا، جس کے لیے شراب نچوڑی جائے، شراب پینے والا، اور شراب کو اٹھا کر لے جانے والا، اور جس کی طرف شراب اٹھا کر لے جائی جائے، اور شراب پلانے والا، اور شراب بیچنے والا، اور اس کی قیمت وصول کر کے کھانے والا، اور اسے خریدنے والا اور جس کے لیے خریدی جائے‘‘۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

(الباب الثاني عشر في الهدایا والضیافات،ج:5،ص:342، ط: رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے :

"مطلب فيمن حج بمال حرام

(قوله: كالحج بمال حرام) كذا في البحر والأولى التمثيل بالحج رياء وسمعة، فقد يقال: إن الحج نفسه الذي هو زيارة مكان مخصوص إلخ ليس حرامًا بل الحرام هو إنفاق المال الحرام، ولا تلازم بينهما، كما أن الصلاة في الأرض المغصوبة تقع فرضا، وإنما الحرام شغل المكان المغصوب لا من حيث كون الفعل صلاة لأن الفرض لا يمكن اتصافه بالحرمة، وهنا كذلك فإن الحج في نفسه مأمور به، وإنما يحرم من حيث الإنفاق، وكأنه أطلق عليه الحرمة لأن للمال دخلا فيه، فإن الحج عبادة مركبة من عمل البدن والمال كما قدمناه، ولذا قال في البحر ويجتهد في تحصيل نفقة حلال، فإنه لا يقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث، مع أنه يسقط الفرض عنه معها ولا تنافي بين سقوطه، وعدم قبوله فلا يثاب لعدم القبول، ولا يعاقب عقاب تارك الحج. اهـ. أي لأن عدم الترك يبتنى على الصحة: وهي الإتيان بالشرائط، والأركان والقبول المترتب عليه الثواب يبتنى على أشياء كحل المال والإخلاص كما لو صلى مرائيًا أو صام واغتاب فإن الفعل صحيح لكنه بلا ثواب والله تعالى أعلم."

( كتاب الحج،ج:2،ص:456، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: كما لو كان الكل خبيثًا) في القنية: لو كان الخبيث نصابًا لايلزمه الزكاة؛ لأنّ الكل واجب التصدق عليه فلايفيد إيجاب التصدق ببعضه. اهـ.ومثله في البزازية".

(کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم،ج:2،ص:291،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504102177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں