بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شراب کا جائز استعمال موجود ہونے کے باوجود اس کی بیع کیوں جائز نہیں ہے ؟


سوال

 جس چیز کا کوئی جائز استعمال موجود ہو، اس کی بیع جائز ہے، تو شراب کی بیع کیوں جائز نہیں ؟(اس سے سرکہ بنایا جا سکتا ہے)

جواب

واضح رہے کہ شراب (خمر) کی حرمت ،نص قطعی یعنی قرآنِ کریم سے ثابت ہے،اور شراب کی مختلف قسمیں ہیں۔

(1)  خمر(انگور کا کچا پانی جب جوش مارے اور جاگ پھینکے)۔

(2)  عصیر(جب انگور کے عصیر کو اتنا پکایا جائے کہ دوثلث سے کم اڑجائے)۔

(3) کھجور کی پکائی ہوئی شراب جب اس پر جھاگ چھاجائے۔

(4) نقیع الزبیب(کشمش کا کچا پانی جب وہ جوش دینے کے بعد جھاگ پھینکنے لگے)۔

ان اشربہ اربعہ کو شراب کہتے ہیں، ان کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہیں، اور خمر كی خرید وفروخت بھی حرام ہے، صرف خرید و فروخت ہی نہیں  بلکہ  شراب(خمر) کے حوالے سے کسی بھی طرح کے تعاون پر لعنت وارد ہوئی ہے، شراب(خمر) سے متعلق دس طرح کے لوگوں پر لعنت حدیث میں آئی ہے، ان اشربہ اربعہ کے علاوہ جن مشروبات میں نشہ پیدا ہو تو وہ  بھی حرام ہیں، اور شراب کے حکم میں ہیں، اور جن میں نشہ نہ ہو تو وہ حلال ہیں۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ﴿٩١﴾،

 جس کا ترجمہ ہے:"اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (یہ سب)ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤشیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو (ان کاموں سے)باز رہنا چاہیئے"۔

شراب (خمر)مسلمان کے حق میں  مالِ متقوم ہے ہی نہیں کہ اس کی بیع (خرید و فروخت ) کی جائے،کیوں کہ بیع (خرید و فروخت) میں ،مبیع (جس کو بیچا جا رہا ہو) اور ثمن(جس کے ذریعہ کسی چیز کو خریدا جارہا ہو ) ،دونوں کا مالِ متقوم ہونا ضروری ہے۔البتہ جہاں تک "سرکہ" سے متعلق بات ہےتو  اس بارے میں فقہائے کرام نے یہی فرمایا ہے کہ اگر شراب سے سرکہ بنالیا جائےیا خود سے وہ سرکہ بن جائے،تو اس کا استعمال جائز ہے، لیکن اس جواز کی وجہ شراب(خمر) ہونے کی حیثیت سے ہے ہی نہیں ، بلکہ اس صورت میں اس کی ہیئت اور حقیقت بدل چکی ہے،اور اب وہ مادہ شراب رہا  ہی نہیں، بلکہ وہ  اب کسی  اور  حقیقت میں بدل چکا ہے  اور کسی بھی شے  کی حقیقت اور اصل کے بدل جانے سے اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے،اس حیثیت سے  اس کا استعمال جائز ہے۔ 

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو قال: ‌لعن ‌الله ‌الخمر، وعاصرها، وشاربها، وساقيها، وبائعها، ومبتاعها، وحاملها، والمحمولة إليه، وآكل ثمنها."

(كتاب البيوع، باب في الخمر وثمنها، ج:4، ص:90، ط:مكتبة القدسي)

البحرالرائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (‌والمحرم ‌منها ‌أربعة: الخمر وهي النيء من ماء العنب إذا غلى واشتد وقذف بالزبد وحرم قليلها وكثيرها)....(والطلاء وهو العصير إن طبخ حتى ذهب أقل من ثلثيه) وهذا النوع الثاني...(والسكر وهو النيء من ماء الرطب) وهذا هو النوع الثالث من الأشربة المحرمة...(ونقيع الزبيب وهو النيء من ماء الزبيب) وهو الرابع من الأشربة المحرمة إذا اشتد."

(كتاب الأشربة، ج:8، ص:247-248، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

(ولا يجوز بيعها) لحديث مسلم "إن الذي حرم شربها حرم بيعها."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:449، ط:دار الفكر۔بيروت)

وفیہ ایضاً:

"قوله (ويجوز تخليلها) وهو أولى هداية أقول: وإنما لم يجب وإن كان في إراقتها ضياعها، لأنها غير متقومة."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:451، ط:دارالفكر۔بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144503101871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں