بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعی حق مہر کی مقدار و حکم


سوال

شرعی حق مہر کتنا ہوتا ہے؟

جواب

مہر کی مقدار کے اعتبار سے چار صورتیں ہیں:

(1) اقلِّ مہر: مہر کی کم از کم مقدار شرعاً دس درہم مقرر ہے، (اس کا وزن 2 تولہ - ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے، اور موجودہ اوزان کےحساب سے اس کی مقدار 30؍ گرام 618؍ ملی گرام چاندی ہوتی ہے)  اس سے کم مہر مقرر کرنا درست نہیں، تاہم شرعی طور پر مہر کی زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔

(2) مہر مثل: لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، باکرہ یا ثیبہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا اس جتنا مہر، مہر مثل ہے، اتنا مہر عورت کا حق ہے، اگر نکاح میں مہر متعین نہ ہو تب بھی  مہر مثل ہی لازم ہوتا ہے۔

(3) مہر مسمّیٰ: فریقین باہمی رضامندی سے مہرِ مثل سے کم یا زیادہ جو مہر مقرر کریں بشرط یہ کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو، اس کو  ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں، نکاح کے وقت فریقین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوتی ہے۔

(4) مہر فاطمی: مہر کی وہ مقدار ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اوردیگر صاحبزادیوں اور اکثر ازواجِ مطہرات کے لیے مقرر فرمائی تھی، مہر فاطمی کی مقدار پانچ سو درھم  چاندی بنتی ہے، موجودہ دور کے حساب سے اس کی مقدار ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ چاندی ہے، اور گرام کے حساب سے 1.5309 کلو گرام چاندی ہے۔ 

 نکاح کے وقت ان میں کوئی بھی مہر طے کیا جاسکتا ہے، پھر اسی بنیاد پر ان میں ہر ایک کو مختلف اعتبار سے ” مہر شرعی“ کہا جاسکتا ہے، لہٰذا نکاح کے وقت مہر طے کرتے ہوئے مہر شرعی، کہنے والا  اس سے جو مراد لے یا اس علاقہ میں جس کو مہر شرعی کہنے کا عرف ہو، اسی کا اعتبار کیا جائے گا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عبد العزيز بن محمد، حدثني يزيد بن عبد الله بن أسامة بن الهاد، ح وحدثني محمد بن أبي عمر المكي، واللفظ له، حدثنا عبد العزيز، عن يزيد، عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه قال: سألت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: كم كان صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: «كان صداقه لأزواجه ثنتي عشرة أوقية ونشاً»، قالت: «أتدري ما النش؟» قال: قلت: لا، قالت: «نصف أوقية، فتلك خمسمائة درهم، فهذا صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم لأزواجه".

ترجمہ: ’’حضرت ابوسلمہؒ سے مروی ہےکہ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیاکہ رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات کا مہر کتنا تھا؟ فرمایا: آپ ﷺ نے بارہ اوقیہ اورنش مہر دیا تھا، پھر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تم کو معلوم ہے نش کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں، حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: آدھا اوقیہ (یعنی بیس درہم) اس طرح کل مہر پانچ سو درہم ہوا؛ یہی ازواج مطہرات کا مہر تھا‘‘۔

(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب الصداق، ج:4 ،ص:144، رقم الحدیث:1426، ط:دار الطباعة العامرة)

مرقاۃالمفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(وعن عائشة) رضي الله عنها (قالت: «قال النبي صلى الله عليه وسلم الله عليه وسلم: إن أعظم النكاح بركة») أي: أفراده وأنواعه (أيسره) أي: أقله أو أسهله، (مؤنة) أي: من المهر والنفقة للدلالة على القناعة التي هي كنز لا ينفد ولا يفنى".

(كتاب النكاح، ج:5، ص:2049، ط:دار الفكر- بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(أقله عشرة دراهم) لحديث البيهقي وغيره "لا مهر أقل من عشرة دراهم ورواية الأقل تحمل على المعجل (فضة وزن سبعة) مثاقيل كما في الزكاة (مضروبة كانت أو لا)".

(کتاب النکاح، باب المہر، ج:3 ،ص:101، ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"أقل المهر عشرة دراهم مضروبة أو غير مضروبة حتى يجوز وزن عشرة تبرا، وإن كانت قيمته أقل، كذا في التبيين وغير الدراهم يقوم مقامها باعتبار القيمة وقت العقد في ظاهر الرواية".

(کتاب النکاح ،الباب السابع فی المہر،الفصل الاول فی بیان مقدرا لمہر ،ج:1 ،ص: 302، ط:رشيدية)  

بدائع الصنائع  میں ہے :

"فإن كان الاختلاف في أصل التسمية يجب مهر المثل؛ لأن الواجب الأصلي في باب النكاح هو مهر المثل؛ لأنه قيمة البضع، وقيمة الشيء مثله من كل وجه، فكان هو العدل، وإنما التسمية تقدير لمهر المثل. فإذا لم تثبت التسمية لوقوع الاختلاف فيها، وجب المصير إلى الموجب الأصلي".

(کتاب النكاح، فصل في المهر، ج:2، ص:305، ط:سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے: 

’’ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی کے برابر تھا،ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتاہے،پس یہ پانچ سو درہم جس کی مقدار تقریبا 131 تولہ چاندی ہے‘‘۔

(کتاب النکاح، باب المہر، ج:12، ص:29، ط:مکتبہ فاروقیہ کراچی)

جواہر الفقہ میں ہے:

’’مہر فاطمی جس کی مقدار منقول پانچ سو درہم ہے، کما فی عامة روایات الحدیث، اس کی مقدار موجودہ روپے سے ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ ہوئی ‘‘۔

(اوزان شرعیہ، سونے چاندی کا صحیح نصاب، ج:1، ص:424، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں