بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا وظیفہ زوجیت پر قدرت کے باوجود یہ حق ادا نہ کرنے کی صورت میں بیوی کے لیے شرعی حکم


سوال

اگرکوئی شوہر  وظیفہ زوجیت پر قادر ہونے کے باوجود بیوی کا یہ حق ادا نہ کرے تو بیوی کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟کیا  عورت اس بنیاد پر خلع لے سکتی ہے ؟نیزاگر عدالت اس بنیاد پر فیصلہ جاری کر دے تو وہ فیصلہ معتبر ہوگا یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ  مطہرہ نے شوہروں کو اپنی بیویوں  کے  ساتھ حُسنِ سلوک و حُسنِ معاشرت کا پابند کیا ہے، جس میں اس  کے  ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، اس کا حق بغیر ٹال مٹول کے ادا کرنا اور  اس کی جنسی خواہش کی تسکین فراہم کرنا سب داخل ہے ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :" تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے  اہل کے حق میں تم میں    بہترین ہوں"۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا "(النساء: 19)

"ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے   کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)

 حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم . رواه الترمذي".

(مشکاة المصابیح، 2/282،  باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے  فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے"۔

(مظاہر حق، 3/370، ط:  دارالاشاعت)

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".

(مشکاة المصابیح، 2/281، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے فر مایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے  اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں"۔

(مظاہر حق، 3/365، ط:  دارالاشاعت)

 یہی وجہ ہے کہ فقہاءِ کرام نے صراحت کی ہے کہ جس طرح سے شوہر کی جانب سے جنسی تسکین کے مطالبہ کو پورا کرنا بیوی پر لازم ہے، بشرط یہ کہ کوئی شرعی  مانع نہ ہو، بالکل اسی طرح بیوی کی جانب سے جنسی تسکین کے مطالبہ  یا خواہش پر اسے پورا کرنا شوہر پر واجب ہے، پس اگر شوہر عورت کے اِس مطالبہ کو پورا نہ کرے تو حق تلفی کے گناہ کا مرتکب ہوگا،ایسی صورت میں بیوی کو چاہیے کہ وہ خاندان کےبااختیار و سمجھدار افراد اور بزرگوں کے ذریعہ اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کرے ، اور شوہر کسی بھی طور پرحقوق کی ادائیگی کے لیے راضی نہ ہوتو بیوی شوہر سے طلاق یا مہر کی معافی کی شرط پرخلع کا مطالبہ کرسکتی ہے، لیکن خلع کے واقع ہونے کے لیےشوہر کی رضامندی ضروری ہے، لہذا شوہر جب تک زبانی یا تحریری طور پر طلاق یا خلع نہ دے دے،بیوی پر طلاق خلع واقع نہ ہوگی،چاہےبیوی عدالت میں خلع کا کیس دائر کرکے یک طرفہ خلع لے لے، ایسی خلع کا شرعاً اعتبار نہیں ہے، عدالتی خلع کے حوالہ سے مذکورہ بالا تفصیل اس صورت میں ہے جب شوہرنے نکاح کے بعد بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کرلیا ہو،چاہے ایک دفعہ ہی کیوں نہ ہواہو، کیوں کہ میاں بیوی کے درمیان ایک دفعہ بھی ازدواجی تعلق قائم ہوجائے تو بیوی کو عدالت سے علیحدگی حاصل کرنے کا حق نہیں ہوتا، لیکن  مرد باوجود قدرت و طاقت کہ اگر کسی بھی طور پر یہ حق ادا نہ کرے توعورت خاندانی اور معاشرتی دباؤ ڈال کر اس کو حقوق کی ادائیگی  پرمجبور کرسکتی ہے، اور مرد پر بھی لازم ہے کہ وہ حقِ زوجیت کی ادائیگی کو یقینی بنائے ، بصورتِ دیگر عورت کوطلاق دےدے،قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے  اس پر تنبیہ فرمائی ہےکہ کوئی مرد اپنی بیوی کےحقوق بھی ادا نہ کرے اور اس کو طلاق دے کر علیحدہ بھی نہ کرے،بلکہ اپنے عقد نکاح میں ظلم و زیادتی کی غرض سے رکھے،چنانچہ سورۃ البقرۃ میں ہے:"وَّ لَا تُمْسِكُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْاۚ "(ترجمہ :اور ان کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے مت رکھو،اس ارادے سے کہ ان پر ظلم کیاکروگے)۔

اور اگر شوہر نےنکاح کے بعدایک مرتبہ بھی بیوی سےازدواجی تعلق قائم نہ کیا ہواور بیوی کے مطالبہ پربھی یہ حق ادا نہ کرتا ہوتو وہ اس بنیاد پر اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کرسکتی ہے،اور شوہر پر لازم ہے کہ یا تو وہ بیوی کے حقوق کی ادئیگی کرے یا پھر اسے طلاق یا خلع دے کر علیحدگی اختیار کرلے، اور اگر شوہر خلع دینے پر راضی نہ ہوتو عورت عدالت کے ذریعہ فسخِ نکاح کرواسکتی ہے، لیکن فسخِ نکاح میں بھی اس کی شرائط کا لحاظ رکھ کر اگر عدالتی کاروائی مکمل کی جائے تو  عدالتی فیصلہ معتبر تصور ہوگا، یعنی عورت کسی مسلمان قاضی کی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرے،اور شوہر کا حق زوجیت ادا نہ کرنے پر فسخِ نکاح کا مقدمہ دائر کرے،اور علیحدگی کا مطالبہ کرے،قاضی پہلے اس بات کی تحقیق کرے کہ شوہر نے ایک دفعہ بھی بیوی سے ہمبستری نہیں کی ہے، بعدازاں قاضی اسے مہلت دے،اور اگر اپنے مذکورہ فعل سےباز آجائے اور ایک دفعہ بھی حقِ زوجیت اد اکردے تو عورت دعوی کالعدم ہوجائے گا،اور اس کے بعد وہ علیحدگی کا مطالبہ نہیں کرسکتی،البتہ اگر مہلت کے باوجود شوہر حقِ زوجیت ادا نہ کرے،تو قاضی شوہر کو پابند کرے گاکہ عورت کو طلاق دے دو، اگر وہ طلاق دینے سے انکار کرے تو قاضی خود ان کے درمیان تفریق کرے گا ،جس کے بعد  عدت (تین ماہواریاں) گزار کربیوی کاشرعًا دوسری جگہ نکاح کرناجائز اوردرست ہوگا۔(ملخص از حيلۂ ناجزہ،ص:44 تا48، ط:دارالاشاعت)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"المعاشرة بالمعروف من كف الأذى وإيفاء الحقوق وحسن المعاملة: وهو أمر مندوب إليه، لقوله تعالى:  "وعاشروهن بالمعروف "ولقوله صلّى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي"   وقوله:"استوصوا بالنساء خيراً"والمرأة أيضاً مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج.ومن العشرة بالمعروف: بذل الحق من غير مطل، لقوله صلّى الله عليه وسلم: "مَطْل الغني ظلم".ومن العشرة الطيبة: ألا يجمع بين امرأتين في مسكن إلا برضاهما؛ لأنه ليس من العشرة بالمعروف، ولأنه يؤدي إلى الخصومة. ومنها ألا يطأ إحداهما بحضرة الأخرى؛ لأنه دناءة وسوء عشرة. ومنها ألا يستمتع بها إلا بالمعروف، فإن كانت نِضْو الخلق (هزيلة) ولم تحتمل الوطء، لم يجز وطؤها لما فيه من الإضرار.

حكم الاستمتاع أو هل الوطء واجب؟ قال الحنفية: للزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج."

( البَاب الأوَّل: الزّواج وآثاره، 9 /6598 -6599، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وللزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج، ويجبر عليه في الحكم مرة واحدة والزيادة على ذلك تجب فيما بينه، وبين الله تعالى من باب حسن المعاشرة واستدامة النكاح، فلا يجب عليه في الحكم عند بعض أصحابنا، وعند بعضهم يجب عليه في الحكم."

( كتاب النكاح، فصل بيان حكم النكاح، 2 / 331، ط: دار الكتب العلمية)

البحرالرائق میں ہے:

"لو وطئها مرة لا حق لها في المطالبة لسقوط حقها بالمرة قضاء وما زاد عليها ‌فهو ‌مستحق ‌ديانة لا قضاء كما في جامع قاضي خان."

(كتاب النكاح، باب العنين، ج:4، ص:135، ط:دارالكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لحصول حقها بالوطء مرة) وما زاد عليها ‌فهو ‌مستحق ‌ديانة لا قضاء بحر عن جامع قاضي خان، ويأثم إذا ترك الديانة متعنتا مع القدرة على الوطء ط."

(كتاب النكاح، باب العنين، ج:3، ص:495، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"(قوله ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقا لا يحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانا واجب ديانة، لكن لا يدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى ولم يقدروا فيه مدة.

ويجب أن لا يبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به. اهـ. قال في النهر: في هذا الكلام تصريح بأن الجماع بعد المرة حقه لا حقها اهـ. قلت: فيه نظر بل هو حقه وحقها أيضا، لما علمت من أنه واجب ديانة. قال في البحر: وحيث علم أن الوطء لا يدخل تحت القسم فهل هو واجب للزوجة وفي البدائع: لها أن تطالبه بالوطء لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرة والزيادة تجب ديانة لا في الحكم عند بعض أصحابنا وعند بعضهم تجب عليه في الحكم. اهـ وبه علم أنه كان على الشارح أن يقول ويسقط حقها بمرة في القضاء أي لأنه لو لم يصبها مرة يؤجله القاضي سنة ثم يفسخ العقد. أما لو أصابها مرة واحدة لم يتعرض له لأنه علم أنه غير عنين وقت العقد، بل يأمره بالزيادة أحيانا لوجوبها عليه إلا لعذر ومرض أو عنة عارضة أو نحو ذلك وسيأتي في باب الظهار أن على القاضي إلزام المظاهر بالتكفير دفعا للضرر عنها بحبس أو ضرب إلى أن يكفر أو يطلق وهذا ربما يؤيد القول المار بأنه تجب الزيادة عليه في الحكم فتأمل."

(كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات، ج:3، ص:202، ط:سعيد)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"للزوجة على زوجها حق إتيانها وقضاء وطرها ، دل على ذلك حديث عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم له: ألم أخبر أنك تصوم النهار وتقوم الليل؟ قلت: بلى يا رسول الله. قال: فلا تفعل. صم وأفطر، وقم ونم، فإن لجسدك عليك حقا، وإن لعينك عليك حقا، وإن لزوجك عليك حقاوقال لأبي الدرداء رضي الله عنه: " فصم وأفطر، وصل ونم، وائت أهلك.

للحنفية وقول لبعض الشافعية، وهو أن للزوجة مطالبة زوجها بالوطء، لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه. وإذا طالبته به فإنه يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرة واحدة، والزيادة على ذلك تجب عليه ديانة فيما بينه وبين الله تعالى من باب حسن المعاشرة واستدامة النكاح، ولا تجب عليه في الحكم عند بعض الحنفية، وعند بعضهم يجب عليه في الحكم، وقالوا: يأثم الزوج إذا ترك ما يجب عليه ديانة متعنتا مع القدرة على الوطء."

(بحث الوطء،حق المرأة على زوجها في الوطء، ج:44، ص:35، ط:طبع الوزارة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں