بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 رجب 1446ھ 14 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے نان نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر عدالت سے نکاح فسخ کرانے كا حكم


سوال

میری ہمشیرہ کی شادی چھ سال پہلے ہوئی ،شادی کے ایک ماہ بعد ہی جھگڑے شروع ہوگئے ،پھر ہمشیرہ گھر آگئی،جس کے بعد سے وہ شوہر کے گھر نہیں گئی ،جھگڑے  کی وجہ شوہر کا کا م نہ کرنا تھااور وہ نان ونفقہ وغیرہ نہیں دیتا تھا،اب نہ وہ خلع کےلیے راضی ہے اور نہ طلاق دینے کےلیے ،تو ایسی صورت میں میری ہمشیرہ کےلیے کیا حکم ہے؟وہ کس طرح اس سے علیحدہ  ہوسکتی ہے؟ نیز ایسی صورت میں اگر عدالتی خلع لے لیا جائے،تو اس کا کیا حکم ہے؟نیز کیا تنسیخ نکاح کےلیے عدالت سے رجوع کرسکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ خلع  دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ  ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات میں عاقدین کی رضامندی شرط ہوتی ہے اسی طرح خلع کے معتبر اور درست ہونے کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہے، کوئی ایک فریق بھی راضی  نہ ہو تو ایسا خلع شرعا معتبر نہیں ہوتا ۔

لہذا صورتِ مسئولہ اگر یک طرفہ عدالتی خلع لیا جائے ،اس طور پر کہ اس میں شوہر کی رضامندی نہ ہو ،تو ایسا خلع شرعاًمعتبر نہیں ہوگا۔نیز جب شوہر نان نفقہ نہیں دیتااور  خلع کےلیے راضی نہیں ہے اور  طلاق دینے کےلیے بھی تیار نہیں ہے ،تو ایسی صورت میں شرعی اعتبار سے نکاح ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کی ہمشیرہ کسی متعلقہ مسلمان جج کی عدالت میں  شوہر کی جانب سے  نان ونفقہ نہ دینے کی بنیاد پر فسخ نکاح  کا مقدمہ دائر کرے اور اولاً اپنے  نکاح کو شرعی گواہوں کے ذریعے ثابت کرے،پھر شرعی گواہوں کے ذریعے شوہر کا  نان نفقہ  نہ دینا   ثابت کرے کہ شوہر نان ونفقہ کا انتظام نہیں کرتااور نہ ہی میرے پاس اس کا انتظام ہے،اس مقدمہ کے بعد عدالت شوہر کو حاضر ہونے کاحکم جاری کرے گی ،اگر شوہر عدالت میں حاضرہوکر   نان ونفقہ اداکرنے اور ظلم نہ کرنےکی یقین دہانی کرادے تو ایسی صورت میں عدالت مصالحت کردے،لیکن اگر شوہرعدالت میں حاضر ہوکراپنے ظلم و ستم سے باز آنے اور نان ونفقہ ادا کرنے پر رضامندی ظاہر نہ کرےیاشوہرسرے سے عدالت میں حاضر ہی نہ ہو تو ان دونوں صورتوں میں عدالت کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہوگا،بعدازاں فسخ نکاح کے بعد عورت کےلیے  عدت گزار کردوسری جگہ نکاح کرنا  جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(كتاب الطلاق، باب الخلع، 441/3، ط:دارالفكربيروت)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: ‌أو ‌اختلعي إلخ) إذا قال لها اخلعي نفسك فهو على أربعة أوجه: إما أن يقول بكذا فخلعت يصح وإن لم يقل الزوج بعده: أجزت، أو قبلت على المختار؛ وإما أن يقول بمال ولم يقدره، أو بما شئت فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده."

( کتاب الطلاق، باب الخلع، 440/3، ط: دارالفكربيروت)

حیلہ ناجزۃ میں ہے :

"والمتعنت الممتنع عن الإنفاق  ففي مجموع الأمیر ما نصه : إن منعھا نفقة الحال فلها القیام فإن لم یثبت عسرہ أنفق أو طلق و إلا طلق علیه، قال محشیه : قوله وإلا طلق علیه أي طلق علیه الحاکم من غیر تلوم... إلي أن قال: وإن تطوع بالنفقة قریب أو أجنبي فقال ابن القاسم: لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لها لأن سبب الفراق  هو عدم النفقة قد انتهی وهو الذي تقضیه المدونة؛ کما قال ابن المناصب، انظر الحطاب، انتهی."

 (ملخص ازحیله ناجزہ، ص:150، ط:دارالإشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605100317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں