بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی سے یہ کہنا کہ ’’اگر آج شام تک گھر نہیں پہنچی تو میری تمہیں طلاق ہے‘‘سے طلاق کا حکم


سوال

میرے داماد نے ایک مرتبہ میری بیٹی سے بولا کہ ’’اگر آج شام تک گھر نہیں پہنچی تو میری تمہیں طلاق ہے‘‘اور ہماری بیٹی پھر وہاں اس کے گھر میں اس شام بھی نہیں گئی اور آج تک دوبارہ نہیں گئی ،اس بات کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے،اس دوران شوہر نے رجوع نہیں کیااور جب سے طلاق کی شرط لگائی تھی اس کے بعد بیوی سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی،لیکن دوسری جگہوں میں الزامات لگاتا رہتا ہےاور یہ کہتاہےکہ  یہ میرے کام کی نہیں ہے،اب پوچھنا یہ ہے:کہ  ایسی صورت میں مذکورہ شخص کے نکاح کاکیا حکم ہے؟دوبارہ ان کا ایک ساتھ رہنا جائز ہےیانہیں؟

واضح رہے کہ اس سے پہلے  بھی داماد لڑائی جھگڑے میں اپنی بیوی کو دھمکیاں دیتے تھے،کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے داماد نے اپنی بیوی سے یہ کہاکہ ’’اگر آج شام تک گھر نہیں پہنچی تو میری تمہیں طلاق ہے‘‘،اور شام تک وہ گھر نہیں پہنچی،تو اسی وقت میں  اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی تھی،  عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو،  اور ماہواری آتی ہو،  اگر ماہواری نہ آتی ہو تو تین ماہ،  اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک  کے عرصہ) کے دوران شوہرکو رجوع کا حق حاصل تھا،پس اگر اس دوران  شوہر نے واقعۃ ً نہ قولاً رجوع  کیا ہو، اور نہ ہی فعلاً رجوع کیا ہو، تو   عدت مکمل ہوتے ہی  نکاح ٹوٹ گیا، اور رجوع کرنے کا حق ختم ہو گیا،اور سائل کی بیٹی کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہوگا، البتہ سائل کی بیٹی اگر اپنے سابق شوہر کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ازدواجی زندگی کا آغاز  کرنا چاہتی ہو،تو اس صورت میں نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ  ایجاب وقبول کرکے تجدید نکاح کرنا ضروری ہوگا، تجدید نکاح کے بعد  شوہر کے پاس  آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا اختیار ہو گا ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"والتعليق في الملك نوعان: حقيقي، وحكمي أما الحقيقي: فنحو أن يقول لامرأته: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق أو إن كلمت فلانا أو إن قدم فلان ونحو ذلك وإنه صحيح بلا خلاف؛ لأن الملك موجود في الحال، فالظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط، فكان الجزاء غالب الوجود عند وجود الشرط فيحصل ما هو المقصود من اليمين وهو التقوي على الامتناع من تحصيل الشرط فصحت اليمين، ثم إذا وجد الشرط، والمرأة في ملكه أو في العدة يقع الطلاق وإلا فلا يقع الطلاق، ولكن تنحل اليمين لا إلى جزاء حتى إنه لو قال لامرأته: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق فدخلت الدار وهي في ملكه طلقت."

(کتاب الطلاق، فصل فی شرائط رکن الطلاق، ج:3، ص:126، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"والرجعي لا يزيل الملك إلا بعد مضي العدة."

(‌‌كتاب الطلاق،‌‌ باب الرجعة، ج:3، ص:400، ط: دارالفکر)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولو تزوجها قبل التزوج، أو قبل إصابة الزوج الثاني، كانت عنده بما ‌بقي ‌من ‌التطليقات."

(كتاب الطلاق، باب من الطلاق، ج:6، ص:95، ط:مطبعة السعادة)

فتح القدیر میں ہے:

"وإذا أضافه إلى شرط ‌وقع ‌عقيب ‌الشرط مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، وهذا بالاتفاق لأن الملك قائم في الحال."

(كتاب الطلاق،‌‌ باب الأيمان في الطلاق، ج:4، ص:116، ط: دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں