بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’شنایا، تہنیَت اور مرحا‘‘ نام رکھنے کا حکم


سوال

میں نے ا پنی بیٹی کا نام ’’مرحا‘‘  ’’شنایا‘‘ ’’ تہنیَت‘‘(Mirha , shnaya ,tahniyat) میں سے رکھنا ہے ،  کیا یہ تینوں نام درست ہیں ؟

جواب

مرحا

عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے تلفظ کے دو طریقے ہیں:

1:  ’’مَرَحا‘‘را پر زبر کے ساتھ  اس کا مطلب ہے’’ تکبر کرنا‘‘ اس معنی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

2: ’’مَرْحیٰ‘‘ (’’م‘‘ پر فتحہ ’’ر‘‘ ساکن اور ’’ح‘‘ پر کھڑا زبر کے ساتھ)  عربی میں اس لفظ  کا معنی ’’اترانے والا، ہلکا‘‘ آتا ہے، اس معنی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا درست نہیں ہے،  اسی طرح اس  کا معنی ’’خوشی سے جھومنا، چکی کا پاٹ‘‘ بھی آتا ہے، اور تیر کے نشانے پر لگنے کی صورت میں شاباشی دینے کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے، ان معانی کے لحاظ سے یہ نام رکھنا درست نہیں ۔

تاج العروس میں ہے:

"مرح : (مَرِحَ، كفَرِحَ: أَشِرَ وبَطِرَ) ، والثلاثةُ أَلفاظٌ مترادفةٌ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {بِمَا كُنتُمْ تَفْرَحُونَ فِى الاْرْضِ بِغَيْرِ الْحَقّ وَبِمَا كُنتُمْ تَمْرَحُونَ} (غَافِر: 75) وَفِي المفردَاتِ: المَرَحَ: شِدَّةُ الفَرَحِ والتَّوسُّع فِيهِ. (و) مَرِحَ (: اخْتَالَ) ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {وَلاَ تَمْشِ فِى الاْرْضِ مَرَحًا} (الإِسراء: 37) أَي متبختِراً مُخْتَالاً.(و) مَرِحَ مَرَحاً: (نَشِطَ) . فِي (الصِّحَاح) و (الْمِصْبَاح) : المَرَحُ: شِدَّة الفَرَحِ، والنَّشاط حتّى يُجاوِزَ قَدْرَه، (و) مَرِحَ مَرَحاً، إِذَا خَفَّ، قَالَه ابْن الأَثير. وأَمْرَحَه غيرُه. (وَالِاسْم) مرَاحٌ، (ككِتَاب، وَهُوَ مَرِحٌ) ، ككَتِف (ومِرِّيحٌ، كسكِّين، مِنْ) قَوْم (مَرْحَى ومَرَاحَى) ، كِلَاهُمَا جمْع مَرِحٍ... (ومَرْحَى) مَرّ ذِكرُه (فِي برح) قَالَ أَبو عمرِو بنُ العلاءِ: إِذا رَمَى الرّجلُ فأَصابَ قيل: مَرْحَى لَه، وَهُوَ تَعجبٌ من جَودةِ رَمْيِه. وَقَالَ أُميّة بن أَبي عَائِذ: يُصِيب القَنيصَ وصِدْقاً يَقُول مَرْحَى وأَيْحَى إِذا مَا يُوالِي وإِذا أَخطأَ قيل لَهُ: بَرْحَى. (و) مَرْحَى: (اسمُ ناقةِ عَبْدِ الله بن الزَّبِيرِ)."

(م ر ح، ج:7، ص: 113)

فیہ ایضاً:

"(وبَرْحَى) ، على فَعْلَى (: كلمةٌ تُقال عِنْد الخطإِ فِي الرَّمْيِ، ومَرْحَى عِنْد الإِصابة) ، كَذَا فِي (الصّحاح) . وَقد تقدم فِي أَي ح أَنّ أَيْحَى تقال عندِ الإِصابة. وَقَالَ ابْن سَيّده: وللعرب كلمتانِ عِنْد الرَّمْيِ: إِذا أَصابَ قَالُوا: مَرْحَى، وإِذا أَخطأَ قَالُوا: بَرْحَى. مختار الصحاح (ص: 292) م ر ح: (الْمَرَحُ) شِدَّةُ الْفَرَحِ وَالنَّشَاطِ وَبَابُهُ طَرِبَ، فَهُوَ (مَرِحٌ) بِكَسْرِ الرَّاءِ وَ (مِرِّيحٌ) بِوَزْنِ سِكِّيتٍ، وَ (أَمْرَحَهُ) غَيْرُهُ، وَالِاسْمُ (الْمِرَاحُ) بِالْكَسْرِ."

(م ر ح، ج:6، ص: 113)

تہنیَت:

’’تہنیَت‘‘ لفظ ’’مبارکی، مبارکبادی‘‘ کے معنی میں آتا ہے، یہ نام رکھنا درست ہے۔

فرہنگ آصفیہ میں ہے:

’’تہنیَت: ع، اسمِ مؤنث، مبارکبادی، بدھائی، بدھاوا، مبارکی‘‘۔

(ت ہ ن، ج:1، ص: 647، ط: مکتبہ حسن سہیل)

لسان العرب میں ہے:

"والتهنئة: خلاف التعزية. يقال: هنأه بالأمر والولاية هنأ وهنأه تهنئة وتهنيئا إذا قلت له ليهنئك."

(أ، فصل الهاء، ج: 1، ص: 185، ط: دار صادر بيروت)

شنایا:

یہ اردو، عربی،  فارسی  اور پشتو میں سے کسی زبان کا لفظ نہیں ہے، دیگر زبانوں میں سے اگر  کسی زبان کا لفظ ہے تو جب تک اس کا معنی معلوم نہ ہو یہ نام نہ رکھا جائے، ناموں کے سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وصحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کوئی نام رکھا جائے، یا اچھا بامعنی عربی نام رکھا جائے۔ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100703

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں