بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کا حکم


سوال

کیا شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانا گناہ ہے ؟

جواب

مردوں کے لیے شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے لٹکانا چاہے نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ ہو  اور چاہے تکبر کی وجہ سے ہو یا تکبر کی نیت نہ  ہو،مطلقاً ہر حال میں حرام اورگناہِ کبیرہ ہےاور حدیث میں اس عمل پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں ، البتہ اگر غلطی یا بھول سے نیچے رہ جائیں تو پھر معاف ہے،البتہ ایسی شلوار بنانے سے احتراز کرنا چاہیے جس میں پائنچے ٹخنوں سے نیچے چلے جاتے ہوں اور اس ممانعت کا تعلق صرف شلوار سے نہیں ہے،بلکہ اس ممانعت میں دیگر لباس مثلاً دھوتی ،پاجامہ وغیرہ بھی داخل ہے ۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن ‌ابن عمر رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلاء."

ترجمہ:"حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص غرور وتکبر کے طور پر اپنے (بدن کے ) کپڑے کو زمین پر گھسیٹتا ہوا چلے گا ،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف (رحمت وعنایت کی نظر سے ) نہیں دیکھے گا۔"(مظاہرِ حق )

(كتاب اللباس ،باب قول الله تعالي قل من حرم زينة الله،383/2،ط:رحمانية)

وفيه أيضا:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار."

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ازقسم ازار (یعنی پائجامہ وغیرہ) کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا،وہ دوزخ میں ڈالا جائے گا۔"(مظاہرِ حق )

(كتاب اللباس،باب ما أسفل من الكعبين فهو في النار،383/2،ط:رحمانية)

فیض الباری میں ہے:

"قوله: (من جر ثوبه خيلاء) وجر الثوب ممنوع عندنا مطلقا، فهو إذن من أحكام اللباس، وقصر الشافعية النهي على قيد المخيلة ، فإن كان الجر بدون التكبر، فهو جائز، وإذن لا يكون الحديث من أحكام اللباس والأقرب ما ذهب إليه الحنفية، لأن الخيلاء ممنوع في نفسه، ولا اختصاص له بالجر، وأما قوله صلى الله عليه وسلم لأبي بكر: «إنك لست ممن يجر إزاره خيلاء»، ففيه تعليل بأمر مناسب، وإن لم يكن مناطا فعلة الإباحة فيه عدم الاستمساك إلا بالتعهد، إلا أنه زاد عليه بأمر يفيد الإباحة، ويؤكدها. ولعل المصنف أيضا يوافقنا، فإنه أخرج الحديث في اللباس، وسؤال أبي بكر أيضا يؤيد ما قلنا، فإنه يدل على أنه حمل النهي على العموم، ولو كان عنده قيد الخيلاء مناطا للنهي، لما كان لسؤاله معنى. والتعليل بأمر مناسب طريق معهود. ولنا أن نقول أيضا: إن جر الإزار خيلاء ممنوع لمن يتمسك إزاره، فليس المحط الخيلاء فقط."

(كتاب اللباس، باب من جر ثوبه من الخيلاء،72/6،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإسبال الإزار والقميص بدعة ينبغي أن يكون الإزار فوق الكعبين إلى نصف الساق."

(كتاب الكراهية ،الباب التاسع في اللبس ما يكره من ذلك وما لا يكره،333/5،ط:رشيدية)

فتح الباری میں ہے:

"قال بن عبد البر مفهومه أن الجر لغير الخيلاء لا يلحقه الوعيد إلا أن جر القميص وغيره من الثياب مذموم على كل حال."

(كتاب اللباس، باب من جر ثوبه من الخيلاء،263/10،ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں