بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شلوار لمبی ہونے کی وجہ سے نماز سے پہلے شلوار اوپر کی جانب سے موڑ کر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

میری شلوار لمبی ہے اور نمازکے لیے میں ناڑے  کی طرف سے موڑ کر اس کو ٹخنے سے اوپر اٹھا تا ہوں، کیا  اس سے نماز مکروہ ہوجاتی ہے ؟

جواب

شلوار کے  پائنچے  ٹخنوں سے  نیچے  رکھنا  بقصدِ تکبر حرام، اور بلاقصدِ تکبر مکروہِ تحریمی (ناجائز)ہے،  اگر غیر ارادی طور پر کبھی شلوار کا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹک جائے تو  معاف ہے، لیکن جان بوجھ کر ایسا کرنا جائز ہی نہیں ہے، اور شلوار ہی ایسی بنانا کہ پائنچہ ٹخنوں سے نیچے لٹکتا رہے یہ درست نہیں ہے، اور یہ متکبرین کی علامت ہے، اور ٹخنوں کو ڈھانکنا نماز اور غیر نماز ہر حال میں ممنوع ہے، اور نماز میں اس کی حرمت مزید شدید ہوجاتی ہے،   لہذا ایسا لباس ہی نہ بنایا جائے جس میں ٹخنے ڈھکتے ہوں، فقہاءِ  کرام نے ایسا لباس سلوانے کو مکروہ لکھا ہے جس میں مرد کے ٹخنے چھپ جاتے ہوں۔ اور ایسا لباس ہونے کی صورت میں  نماز شروع کرنے سے پہلے شلوار  یا  پینٹ وغیرہ کو اوپر  سے موڑ لینا چاہیے، ورنہ کم ازکم نیچے سے موڑلے، ورنہ نماز کے دوران بھی مکروہِ تحریمی کا ارتکاب لازم آئے گا، لہٰذا اگر کبھی اتفاقاً آپ کی شلوار لمبی ہو تو نماز سے پہلے اسے موڑ کر ٹخنوں سے اوپر کرلینا چاہیے۔

باقی جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ ایسا لباس بنانا چاہیے جو  موڑے بغیر ٹخنوں سے اوپر ہو اور جو لباس لمبے سلے ہوئے ہوں ان کو بھی اگر درست کرنا ممکن ہو تو درست کرلینا چاہیے، تاکہ نماز کے علاوہ بھی اس مکروہ تحریمی فعل ارتکاب لازم نہ آئے۔

"إن الله  تعالی لایقبل صلاة رجل مسبل".

(سنن أبي داؤد، کتاب اللباس، باب ماجاء في إسبال الإزار، النسخة الهندیة۲/۵۶۵، بیت الأفکار رقم:۴۰۸۶)

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ کپڑا لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں فرماتے۔ (سنن ابی داؤد)

"عن أبي هریرة قال: قال رسول اﷲ صلی الله علیه وسلم: ما أسفل من الکعبین  من الإزار في النار".

(صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب ما أسفل من الکعبین ففي النار،۲/۸۶۱، رقم:۵۵۵۹)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹخنوں سے نیچے جو حصہ تہبند (شلوار وغیرہ) کا ہو، وہ جہنم میں جلے گا۔ (صحیح بخاری)

"عن أبي ذر عن النبي صلی الله  علیه وسلم قال: ثلاثة لایکلمهم الله یوم القیامة: المنان الذي لایعطي شیئاً إلامنّه، والمنفق سلعته بالحلف والفاجر، والمسبل إزاره".

(الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم  إسبال الإزار، النسخة الهندیة۱/۷۱، بیت الأفکار رقم:۱۰۶)

ترجمہ: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کریں گے: وہ احسان جتلانے والا، جو کسی کو بھی کوئی چیز دے تو احسان جتلائے۔ اور اپنا سامان جھوٹی قسم کے ذریعے چلانے (بیچنے) والا۔ اور تہبند ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا۔

"وینبغي أن یکون الإزار فوق الکعبین" الخ

(الفتاوى الهندیة، کتاب الکراهية، الباب التاسع في اللبس، زکریا۵/۳۳۳)  

’’مرقاة المفا تیح‘‘ :

"ولایجوز الإسبال تحت الکعبین إن کان للخیلاء، وقد نص الشافعی علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء؛ لدلالة ظواهر الأحادیث علیها، فإن کان للخیلاء فهو ممنوع منع تحریم".

(۸/۱۹۸، کتاب اللباس)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201855

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں