بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر نکاح کے ہمبستری کرنا


سوال

ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ہم بستری کے لیے نکاح ضروری نہیں ہے، حالاں کہ موجودہ وقت میں باندیوں کا بھی وجود نہیں ہے ،لہذا یہ بات کہاں تک درست ہے ؟ ایسا فتویٰ دینے والے کا کیا حکم ہے ؟

جواب

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انسانوں کو  اپنی شہوت  پورا کرنے کے محض دو طریقے بتائے ہیں،ایک بیوی سے اور دوسرا باندی  سے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}."[المؤمنون:۵ تا ۸]

ترجمہ:"اور جو اپنی شرم گاہوں کی  حفاظت رکھنے والے ہیں،  لیکن اپنی بیبیوں سے یا اپنی  لونڈیوں سے کیوں کہ ان پر کوئی الزام نہیں، ہاں جو اس کے علاوہ طلبگار ہو ، ایسے لوگ حدِ سے نکلنے والے ہیں ۔"(ترجمہ از بیان القرآن)

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں لونڈیوں اور باندیوں سے مراد شرعی باندیا ں ہیں، یعنی  وہ غیر مسلم عورتیں ہیں جو جہاد کے بعد غنیمت  میں حاصل ہوگئی ہوں،  ان گرفتار عورتوں کو یا تو مفت میں رہاکردیا جاتا ہے یا معاوضہ لے کر چھوڑدیا جاتا ہے یا ان کے بدلے مسلمان قیدیوں کو دشمن کی قید سے چھڑادیا جاتا ہے، لیکن اگرانہیں احسان کے طورپر آزاد کردینا ملکی مصلحت کے خلاف ہو اوروہ فدیہ بھی نہ اداکریں اورقیدیوں کے تبادلہ   کی بھی صورت نہ بن سکے توپھر اسلامی علاقہ (یعنی دارالاسلام) میں لانے کے بعد خلیفہ وقت  اگر مصلحت سمجھے تو شریعت نے ان کو اختیار دیا ہے کہ انہیں مجاہدین  میں تقسیم کردے، تقسیم کے بعد  جس  مسلمان کے حصے میں وہ غلام یا لونڈی  آئے وہ اس کا مالک بن جاتا ہے۔

پھر  ان میں جو لونڈی اہلِ  کتا ب میں سے ہو  اگر آقا  اس باندی کاکسی سے نکاح کردے تو وہ  اپنےمالک کے لیے حرام اور صرف اپنے شوہر کے لیے حلال ہوتی ہے اوراگر آقا چاہے تو اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرسکتا ہے  یا بغیر نکاح کے محض استبراءِ رحم کرنے  کے بعد اس سے ازدواجی تعلق قائم کرسکتا ہے۔

اور اگر وہ لونڈی  غیر اہل کتا ب یعنی مشرکہ     یا بت پرست یا دہریہ  ہو تو  اس کے ساتھ نہ تو آقا مباشرت کرسکتاہے اور نہ ہی کسی مسلمان سے اس کا نکاح کراسکتا ہے،  البتہ اگر وہ  اسلام  قبول کرلے تو  پھر آقا اس سے تعلق قائم کرسکتا ہے۔

لیکن موجودہ دور میں کسی عورت کو باندی یا لونڈی نہیں بنایاجاسکتا ؛ اس لیے کہ غلام/باندی بنانے کی اجازت جن صورتوں میں ہے یہ ان میں داخل نہیں ہے، اس کے لیے جو شرائط ہیں کہ  شرعی جہاد ہو ، امام المسلمین کی رائے ہو اورمسلمانوں اورغیر مسلموں میں کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو جس کی رو سے ایک دوسرے کے قیدیوں کو غلام نہ بنایاجاسکتا ہو  وغیرہ وغیرہ ، موجودہ دور میں یہ شرائط مکمل نہیں ہیں، اس لیے کسی عورت کو باندی بناناجائز نہیں ہے۔(مستفاد از فتاوی بینات،ج:4،ص:452۔ط:مکتبہ بینات)

حاصل یہ ہے کہ   اس زمانہ میں کسی شخص کا یہ کہنا کہ ہمبستری کے لیے نکاح ضروری نہیں ہے ،یہ بات خلاف شرع ہے اور بے حیائی کے پھیلانے کا سبب ہے،بغیر نکاح کے ہم بستری کی اجازت  اس باندی سے دی گئی ہے جو شریعت  کے ضابطہ کے مطابق باندی ہو اور موجودہ دور  میں ایسی باندیا ں موجود نہیں ہیں ۔لہذا  جوشخص یہ بات بیان کررہا ہے وہ فاسق اور مضل (گمراہ کرنے والا) ہے ۔

وفي الفتاوى الهندية :

"من اعتقد الحرام حلالا، أو على القلب يكفر أما لو قال لحرام: هذا حلال لترويج السلعة، أو بحكم الجهل لا يكون كفرا، وفي الاعتقاد هذا إذا كان حراما لعينه، وهو يعتقده حلالا حتى يكون كفرا أما إذا كان حراما لغيره، فلا وفيما إذا كان حراما لعينه إنما يكفر إذا كانت الحرمة ثابتة بدليل مقطوع به أما إذا كانت بأخبار الآحاد، فلا يكفر كذا في الخلاصة...إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط."

(كتاب السير،الباب التاسع في أحكام المرتدين ،مطلب في موجبات الكفر،2/ 272،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں