بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شک سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی


سوال

 مفتی صاحب یہ واقعہ آج سے دو سال پہلے کا ہے میں اپنی منگیتر کی والدہ( جو ہماری رشتہ دار بھی ہے) کے ساتھ بازار سے آرہا تھا، راستے میں میرے ذہن میں شہوانی خیالات آرہے تھے، راستے میں چلتے چلتے اچانک میں نے اُن کا ہاتھ پکڑا اور میری منگیتر کی والدہ نے فوراً اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور ہاتھ چھڑوالیا اب یہ ہاتھ پکڑنے والا لمحہ منٹ سے بھی کم یعنی کچھ سیکنڈ کا تھا اُنھوں نے چونکہ گاؤن یعنی عبایا پہنا ہوا تھا اب مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں نے جب اُن کا ہاتھ پکڑا تھا تو کلائی پکڑی تھی جس پر کپڑا نہیں تھا یا بازو پکڑا تھا جس پر ڈبل کپڑا تھا یعنی قمیض کی آستین اور عبایا کی آستین نا یہ یاد ہے کہ اُن کے جسم کی حرارت محسوس ہوئی تھی یا نہیں اور جب ہاتھ پکڑا تو اُس وقت موجودہ شہوت میں اضافہ ہوا تھا یا نہیں میں بہت پریشان ہوں کیونکہ اُس وقت مجھے حرمت مصاہرت کے مسائل کا پتہ نہیں تھا اب میں اپنے کیے پر شرمندہ بھی ہو ں اور الله تعالیٰ سے اپنے کیے کی معافی بھی مانگتا ہوں میرا رشتہ میری والدہ نے بہت پیار اور مان سے کیا ہے اب اگر اِس صورتحال میں حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے تو میری ماں جیتے جی مر جائے گی اور معاشرے میں رسوائی بھی ہوگی مفتی صاحب جب سے مجھے حرمت مصاہرت کے مسائل کا پتہ چلا تو سوچ سوچ میری ذہنی حالت ااُس واقعے کو یاد کرکے بہت الجھی ہوئی ہے اور میری اُلجھن میں اضافہ ہوتا جارہا ہے برائے مہربانی مفتی صاحب میرے لیے کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ میرا رشتہ بھی بچ جائے اور ذہن کو سکون اور اطمنان بھی حاصل ہوجائے۔

جواب

واضح رہے کہ حرمتِ مصاہرت میں شہوت کے ہونے یا نہ ہونے میں شک ہو،اسی طرح حرارت محسوس ہونے میں بھی شک ہو ،تو ان صورتوں میں صرف شک کی بناءپر حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ، بلکہ حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے ضروری شرائط میں سے شہوت کا بالیقین ہونا یا  شہوت کا غالب گمان کے درجہ میں ہونا ضروری ہے؛لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعی شہوت کا یقین یا ظنِ غالب نہ ہو، نہ  ہی حرارت محسوس ہونے کا یقین یا ظنِ غالب ہو ، اور چھوا بھی ڈبل کپڑے کے اوپر سے ہو ،یعنی اس طرح چھوا ہو کہ بدن کی گرمی محسوس نہ ہوئی ہو تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی ہے، آپ اس خاتون کی بیٹی سے نکاح کرسکتے ہیں۔

الاشباہ و النظائر میں ہے:

"‌‌القاعدة الثالثة: ‌اليقين ‌لا ‌يزول ‌بالشك ودليلها ما رواه مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا {إذا وجد أحدكم في بطنه شيئا فأشكل عليه أخرج منه شيء أم لا فلا يخرجن من المسجد حتى يسمع صوتا، أو يجد ريحا}."

(ص: 48،ط: دار الکتب العلمیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الفتح: لو أدخلت الحلمة في في الصبي وشكت في الارتضاع لاتثبت الحرمة بالشك".

(باب الرضاع، ج: 3، ص: 212، ط: سعيد)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"انصرف اللمس إلى أي موضع من البدن بغير حائل، وأما إذا كان بحائل فإن وصلت حرارة البدن إلى يده تثبت الحرمة وإلا فلا، كذا في أكثر الكتب، فما في الذخيرة من أن الشيخ الإمام ظهير الدين يفتي بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت المقنعة رقيقة تصل الحرارة معها كما قدمناه وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة........وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ‌ويقع ‌في ‌أكبر ‌رأيه ‌صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقها أو يغلب على ظنه صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك."

(کتاب النکاح،فصل في المحرمات في النكاح،ج:3،ص:107،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں