بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شک کی وجہ سے حرمت رضاعت ثابت ہوگی یا نہیں ؟


سوال

میری دادی کو لگتا ہے کہ شاید انہوں نے مجھے ایک بار دودھ پلایا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ مجھے یاد نہیں  ہے لیکن مجھے شک ہے کہ شاید پلایا ہے، خاندان کے باقی افراد سے معلوم کیا تو کسی نے ان کے حق میں گواہی نہیں دی ، اور نہ کسی نے دیکھا ہے، میں نے استخارہ بھی کیا جو مثبت آیا ہے اور ان کے شک کو منفی قرار دے رہا ہے۔ اس صورت میں کیا میرا میرے کسی کزن کے ساتھ نکاح جائز ہے ؟

(واضح رہے کہ سوال ایک خاتون کی طرف سے ہے)۔

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں اگر سائلہ کی دادی کو   ،سائلہ کو دودھ پلانے کا یقین نہیں اور نہ ہی کسی کی طرف سے دودھ پلانے کا دعویٰ  اور شہادت ہے ، بلکہ  دادی کو محض شک ہے تو اس سے حرمتِ رضاعت  ثابت نہیں ہوگی، اس لیے کہ    حرمت رضاعت  ثابت ہونے کے لیے شرعًا دو عادل مرد یا ایک مرد اور دو عادل عورتوں کی  گواہی ضروری ہے،  صرف ایک مرد یا ایک عورت ، یا ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت  سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی،اور محض شک کی بنیاد پر بھی حرمت  ثابت نہیں ہوتی۔لہذا آپ کا نکاح آپ کے کسی چچازاد کے ساتھ درست ہے، بشرطیکہ حرمت کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الرضاع (حجته حجة المال) وهي شهادة عدلين أو عدل وعدلتان، لكن لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي  لتضمنها حق العبد (وهل يتوقف ثبوته على دعوى المرأة؛ الظاهر لا) لتضمنها حرمة الفرج وهي من حقوقه تعالى (كما في الشهادة بطلاقها).

(قوله: حجته إلخ) أي دليل إثباته وهذا عند الإنكار لأنه يثبت بالإقرار مع الإصرار كما مر (قوله: وهي شهادة عدلين إلخ) أي من الرجال. وأفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد امرأة كان أو رجلا قبل العقد أو بعده، وبه صرح في الكافي والنهاية تبعًا، لما في رضاع الخانية: لو شهدت به امرأة قبل النكاح فهو في سعة من تكذيبها، لكن في محرمات الخانية إن كان قيله والمخبر عدل ثقة لا يجوز النكاح، وإن بعده وهما كبيران فالأحوط التنزه وبه جزم البزازي معللا بأن الشك في الأول وقع في الجواز، وفي الثاني في البطلان والدفع أسهل من الدفع."

 (کتاب النکاح، باب الرضاع،ج:۳،ص:۲۲۴،ط:سعید)

        البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: ويثبت بما يثبت به المال) وهو شهادة رجلين عدلين أو رجل وامرأتين عدول لأن ثبوت الحرمة لا يقبل الفصل عن زوال الملك في باب النكاح وإبطال الملك لا يثبت إلا بشهادة رجلين ... أفاد أنه لا يثبت بخبر الواحد رجلًا أو امرأةً وهو بإطلاقه يتناول الإخبار قبل العقد وبعده وبه صرح في الكافي، والنهاية."

 (کتاب الرضاع،ج:۳،ص:۲۳۲،ط:سعید)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(ويثبت به) ولو بين الحربيين بزازية (وإن قل) إن علم وصوله لجوفه من فمه أو أنفه لا غير، فلو التقم الحلمة ولم يدر أدخل اللبن في حلقه أم لا لم يحرم لأن في المانع شكًّا، ولوالجية.

(قوله: فلو التقم إلخ) تفريع على التقييد بقوله إن علم. وفي القنية: امرأة كانت تعطي ثديها صبية واشتهر ذلك بينهم ثم تقول لم يكن في ثديي لبن حين ألقمتها ثدي ولم يعلم ذلك إلا من جهتها جاز لابنها أن يتزوج بهذه الصبية. اهـ. ط. وفي الفتح: لو أدخلت الحلمة في في الصبي وشكت في الارتضاع لا تثبت الحرمة بالشك."

 (کتاب النکاح، باب الرضاع،ج:۳،ص:۲۱۲،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں