بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شک کی وجہ سے بار بار غسل کرنا


سوال

 جب بھی میں غسل کرتا ہوں،  تو غسل کے بعد شک میں رہتا ہوں کہ کہیں کوئی فرض ا چھے سے ادا ہوا کہ نہیں،  اور پانی کے صاف ہونے پر بھی مشکوک رہتا ہوں اور جب تک میں دوبارہ  ایک یا دو مرتبہ غسل نہ کرلوں تو میرے منہ میں لعاب بہت عجیب سا ہوتا ہے، لہذا آپ یہ بتائیں کہ یہ صرف میرے وہم کی وجہ  سے میرا  لعاب مجھے عجیب لگتا  ہے، غسل کی قبولیت کا مسئلہ ہے؟

جواب

 صورت مسئولہ میں سائل غسل خانہ میں دعا پڑھ کر داخل ہو، اور جب بھی غسل واجب ادا کرے تو  سنت طریقہ کے مطابق  سب سے پہلے ہاتھ دھو کر  استنجاء کرے، پھر   وضو کرے،  پھر تین  مرتبہ سارے بدن پر اچھی طرح پانی بہالے، کہ جسم کا کوئی حصہ خشک نہ رہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اپنے  سر پر  پانی بہائے، پھر دائیں کندھے پر پانی بہائے، پھر بائیں پر بہائے، اور جسم کو اچھی طرح سے ہاتھوں سے رگڑلے،  البتہ اگر غسل سے پہلے وضو نہ کیا ہو تو آخر میں وضو کرنے کی ضرورت نہیں، تاہم  منہ بھر کرکلی کرے،روزہ نہ تو غرغرہ کرلے  اور ناک میں پانی ڈال کرنرم ہڈی تک پہنچادے، اس طرح کرنے  سے وہ پاک ہوجائے گا، پس اس کے بعد غسل خانہ میں زیادہ وقت نہ گزارے، فوری طور پر باہر آجائے۔ 

مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق غسل  کرنے کے بعد بالکل  شک نہ کرے، نیز انسان کے لعاب کا اس  کی پاکی، یا  نا پاکی سے کوئی تعلق نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" وهي ثلاثة: المضمضة، والاستنشاق، وغسل جميع البدن على ما في المتون. وحد المضمضة والاستنشاق كما مر في الوضوء من الخلاصة.

الجنب إذا شرب الماء ولم يمجه لم يضره ويجزيه عن المضمضة إذا أصاب جميع فمه. كذا في الظهيرية ولو كان سنه مجوفا فبقي فيه أو بين أسنانه طعام أو درن رطب في أنفه ثم غسله على الأصح. كذا في الزاهدي والاحتياط أن يخرج الطعام عن تجويفه ويجري الماء عليه هكذا في فتح القدير والدرن اليابس في الأنف يمنع تمام الغسل. كذا في الزاهدي."

( كتاب الطهارة، الباب الثاني في الغسل، الفصل الأول في فرائضه، ١ / ١٣ ، ط: دار الفكر)

الدر المختار میں ہے:

(وسننه) كسنن الوضوء سوى الترتيب. وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة؛ لأنه يكون غالبا مع كشف عورة وقالوا: لو مكث في ماء جار أو حوض كبير أو مطر قدر الوضوء والغسل. فقد أكمل السنة (البداءة بغسل يديه وفرجه) وإن لم يكن به خبث اتباعا للحديث (وخبث بدنه إن كان) عليه خبث لئلا يشيع (ثم يتوضأ) أطلقه فانصرف إلى الكامل، فلا يؤخر قدميه ولو في مجمع الماء لما أن المعتمد طهارة الماء المستعمل، على أنه لا يوصف بالاستعمال إلا بعد انفصاله عن كل البدن لأنه في الغسل كعضو واحد، فحينئذ لا حاجة إلى غسلهما ثانيا إلا إذا كان ببدنه خبث ولعل القائلين بتأخير غسلها إنما استحبوه ليكون البدء والختم بأعضاء الوضوء، وقالوا: لو توضأ أولا لا يأتي به ثانيا؛ لأنه لا يستحب وضوءان للغسل اتفاقا، أما لو توضأ بعد الغسل واختلف المجلس على مذهبنا أو فصل بينهما بصلاة كقول الشافعية فيستحب (ثم يفيض الماء) على كل بدنه ثلاثا مستوعبا من الماء المعهود في الشرع للوضوء والغسل وهو ثمانية أرطال، وقيل: المقصود عدم الإسراف. وفي الجواهر لا إسراف في الماء الجاري؛ لأنه غير مضيع وقد قدمناه عن القهستاني (بادئا بمنكبه الأيمن ثم الأيسر ثم رأسه) على (بقية بدنه مع دلكه) ندبا، وقيل يثني بالرأس، وقيل يبدأ بالرأس وهو الأصح. وظاهر الرواية والأحاديث. قال في البحر وبه يضعف تصحيح الدرر. 

رد المحتار میں ہے:

(قوله: اتباعا للحديث) وهو ما روى الجماعة عن «ميمونة - رضي الله عنها - قالت وضعت للنبي - صلى الله عليه وسلم - ماء يغتسل به، فأفرغ على يديه فغسلهما مرتين أو ثلاثا، ثم أفرغ بيمينه على شماله فغسل مذاكيره، ثم دلك يده بالأرض، ثم تمضمض واستنشق، ثم غسل وجهه ويديه، ثم غسل رأسه ثلاثا، ثم أفرغ على جسده، ثم تنحى عن مقامه فغسل قدميه» فتح.

( كتاب الطهارة، سنن الغسل، ١ / ١٥٦ - ١٥٩، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں