بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شک کی بنیاد پر حرمت مصاہرت کا حکم


سوال

میری ساس کے گود میں میرا بچہ تھا مجھے اُسے اُن سے لینا تھا ،جب میں نے ان کی گود سے اٹھانے کا ارادہ کیا تو میرا ہاتھ اُن سے مس ہو گیا اور یہ مس 3 سیکنڈ کا تھا تقریباً نا پہلے سے مجھے شہوت تھی نا بعد میں شہوت کا کوئی احساس ہوا، لیکن عضوِ تناسل میں چھونے کے دوران حرکت پیدا ہوئی جو کہ 3 سے 4 پرسنٹ کی حرکت رہی ہوگی ۔اب وسوسے آرہے ہیں کیا حرمت مصاہرت ہوئی کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مس  یعنی چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:

1)        مس بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔ وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں ۔

2)      چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔

3)      شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

4)      شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

5)      عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

6)      اگر چھونے والی عورت ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرے  یا چھونے والا مرد ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرےتو شوہر کو  اس خبر کے سچے ہونے کا غالب گمان ہو، اس لیے اس دعوی سے شوہر کا حق باطل  ہوتاہے ،اس لیے  صرف دعوی کافی نہیں، بلکہ شوہر کو ظن غالب  حاصل ہونا  یا  شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

7)      جس کو چھوا جارہا ہو وہ زندہ ہو۔

لہذا صرف   شک کی بنیاد پر حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی  بلکہ حرمت مصاہرت  ثابت ہونے کے لیےان اسباب کا معتبر شرائط کے ساتھ پایا جانا ضروری ہے، لہذا سائل کو چاہیے کہ وہ وسوسہ میں مبتلا نہ ہو اور نہ ہی ایسے وسوسوں کی طرف دھیان دے۔

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"فنقول كما ثبتت حرمة المصاهرة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل عن شهوة عندنا سواء كان في الملك أو في غير الملك، وعند الشافعي رحمه الله تعالى لا تثبت الحرمة بالتقبيل والمس عن شهوة أصلا في الملك أو في غير الملك حتى إنه لو قبل أمته، ثم أراد أن يتزوج ابنتها عنده يجوز. وكذلك لو تزوج امرأة وقبلها بشهوة، ثم ماتت عنده يجوز له أن يتزوج ابنتها بناء على أصله أن حرمة المصاهرة تثبت بما يؤثر في إثبات النسب والعدة، وليس للمس والتقبيل عن شهوة تأثير في إثبات النسب والعدة، فكذلك في إثبات الحرمة وقاس بالنكاح الفاسد فإن التقبيل والمس فيه لا يجعل كالدخول في إيجاب المهر والعدة، وكذلك في إيجاب الحل للزوج الأول، فكذا هنا، ولكنا نستدل بآثار الصحابة رضي الله عنهم ، فقد روي عن ابن عمر رضي الله عنه أنه قال: إذا جامع الرجل المرأة أو قبلها بشهوة أو لمسها بشهوة أو نظر إلى فرجها بشهوة حرمت على أبيه وابنه وحرمت عليه أمها وابنتها. وعن مسروق - رحمه الله تعالى - قال: بيعوا جاريتي هذه أما إني لم أصب منها ما يحرمها على ولدي من المس والقبلة، ولأن المس والتقبيل سبب يتوصل به إلى الوطء فإنه من دواعيه ومقدماته فيقام مقامه في إثبات الحرمة كما أن النكاح الذي هو سبب الوطء شرعا يقام مقامه في إثبات الحرمة إلا فيما استثناه الشرع وهي الربيبة، وهذا لأن الحرمة تنبني على الاحتياط فيقام السبب الداعي فيه مقام الوطء احتياطا، وإن لم يثبت به سائر الأحكام كما تقام شبهة البعضية بسبب الرضاع مقام حقيقة البعضية في إثبات الحرمة دون سائر الأحكام، ولو نظر إلى فرجها بشهوة تثبت به الحرمة عندنا استحسانا، وفي القياس لا تثبت، وهو قول ابن أبي ليلى والشافعي - رحمهما الله تعالى - لأن النظر كالتفكر؛ إذ هو غير متصل بها."

(کتاب النکاح جلد 4 ص: 207 ، 208 ط: دارالمعرفة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504102561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں