بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شک کی بنا پر حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی


سوال

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں اپنی منگیتر کی والدہ جو کہ ہماری رشتہ دار بھی ہے کیساتھ بازار سے آرہا تھا، راستے میں چلتے چلتے اچانک پتہ نہیں میرے ذہن میں کیا خیال آیا میں نے اُن کا ہاتھ پکڑ لیا، اُنھوں نے چونکہ عبایا پہنا ہوا تھا اب مجھے یاد نہیں کہ میں نے اُن کا ہاتھ کلائی کے نیچے سے پکڑا تھا یا اوپر سے، یعنی آستین اور عبایا ڈبل کپڑا تھا، اب مجھے یاد نہیں پڑھ رہا کہ  جو ڈھانپا ہوا حصہ تھا وہ میں نے پکڑا تھا یا کلائی جو ڈھانپی ہوئی نہیں تھی۔ دوسرا مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ جب میں نے اُن کا ہاتھ پکڑا تو میری شہوت میں اضافہ ہوا تھا یا نہیں۔

میں بہت پریشان ہوں کہ اگر حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے تو کیا ہوگا؟  ہماری فیملی چونکہ پورے علاقے میں کافی عزت دار فیملی ہے اگر میرا رشتہ اِس بنیاد پر ختم ہوتا ہے پوری برادری میں ہماری ذلت و رسوائی بھی ہوگی رشتہ داری سے بات دشمنی پر بھی جا سکتی ہے دوسرا یہ کہ میری والدہ نے بہت چاہت اور محبت سے میرا یہ رشتہ طے کیا ہے مجھے یہ ڈر ہے کہ رشتہ ختم ہونے کےساتھ اگر میری والدہ کو کچھ ہوگیا تو میں جیتے جی مرجاوں گا، اور میں خود بھی یہ رشتہ ختم نہیں کرنا چاہتا ۔میں اپنے کیے پر توبہ تائب بھی ہوا ہوں اور انتہائی شرمندہ بھی ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ حرمتِ مصاہرت میں شہوت کے ہونے یا نہ ہونے میں شک ہو،اسی طرح حرارت محسوس ہونے میں بھی شک ہو ،تو ان صورتوں میں صرف شک کی بناءپر حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ، بلکہ حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے ضروری شرائط میں سے شہوت کا بالیقین ہونا یا  شہوت کا غالب گمان کے درجہ میں ہونا ضروری ہے؛لہذا صورتِ  مسئولہ میں  اگر واقعی شہوت کا یقین یا ظنِ غالب نہ ہو، نہ  ہی جسم کی  حرارت محسوس ہونے کا یقین یا ظنِ غالب ہو تو اس صورت میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی ہے۔

الاشباہ و النظائر میں ہے:

"‌‌القاعدة الثالثة: ‌اليقين ‌لا ‌يزول ‌بالشك ودليلها ما رواه مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا {إذا وجد أحدكم في بطنه شيئا فأشكل عليه أخرج منه شيء أم لا فلا يخرجن من المسجد حتى يسمع صوتا، أو يجد ريحا}۔ "

(ص:48،ط:دار الکتب العلمیہ)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"انصرف اللمس إلى أي موضع من البدن بغير حائل، وأما إذا كان بحائل فإن وصلت حرارة البدن إلى يده تثبت الحرمة وإلا فلا، كذا في أكثر الكتب، فما في الذخيرة من أن الشيخ الإمام ظهير الدين يفتي بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت المقنعة رقيقة تصل الحرارة معها كما قدمناه وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة........وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ‌ويقع ‌في ‌أكبر ‌رأيه ‌صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقها أو يغلب على ظنه صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك."

(کتاب النکاح،فصل في المحرمات في النكاح،ج:3،ص:107،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404102086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں