کسی بندہ کو شک ہوا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دےدی تو اس نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا میں نے یہ کہاتھا کہ میری بیوی کو طلاق ہے۔کیا اس سےطلاق ہو جا تی ہے؟
محض شک سے طلاق واقع نہیں ہوتی،اسی طرح اپنے آپ سے مخاطب ہوکر یہ کہنا کہ "کیا میں نے یہ کہاتھا کہ میری بیوی کو طلاق ہے؟" ان الفاظ سے بھی طلاق واقع نہیں ہوتی، باقی اس قسم کے شک و وہم کی طرف دھیان نہیں دینا چاہیے۔
الاشباہ والنظائر میں ہے:
"ومنها: شك هل طلق أم لا؟ لم یقع. شك أنه طلق واحدةً أو أکثر؟ بنی علی الأقل، کما ذکر الإسبیجابي."
(قاعدة: من شك هل فعل أم لا؟ص: 52،ط:العلمية)
فتاوی شامی میں ہے :
"(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس و الإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.و به ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، و كذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لايقع به طلاق و إن نواه."
(کتاب الطلاق ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۳۰،ایچ ایم سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144504101907
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن