بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیطان کے شر سے بچنے کے لیے تکیہ کے نیچے چاقو رکھنا/اوصیرم نام کا معنی


سوال

میرے گھر بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے،میں نے اس کا نام "اوصیرم "رکھا ہے، رہ نمائ فرمائیں،نیز یہ بھی بتلا دیں کہ بچے کے بستر کے نیچے کوئی چھری یا چاقو رکھنا  شیطان سے بچنے کے لیےکیسا عمل ہے؟

جواب

1۔ اوصیرم: تلاشِ بسیار کے بعد بھی اس نام کا معنیٰ نہیں ملا،البتہ "اُصَیْرِم" نام عربی زبان میں ملتا ہے،اصیرم کا معنی ہے: "چھوٹی کاٹ دار تلوار"، یہ نام  ایک صحابی کا لقب تھا، ان کا نام " عمرو بن ثابت"  رضی اللہ عنہ تھا، قبیلہ اوس کی شاخ بنواشہل سے تھے، غزوہ احد میں مسلمان ہوئے اور احد کے میدان میں ہی شہادت پائی،لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اہلِ جنت میں سے ہے،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ : بتلاؤ وہ کون شخص ہے جو جنت میں پہنچ گیا اور ایک نماز کبھی نہیں پڑھی، اور پھر خود ہی بتایا کہ وہ اصیرم ہے۔ 

2۔ بچے کے تکیے کے نیچے چھری یا چاقو  شیطان کے شر سے بچنے کے لیے رکھنا جائز نہیں،شرعی طور پر اس کی کوئی صحیح بنیاد موجود نہیں ہے،اس سلسلہ میں شرعی طریقہ یہ ہے کہ بچوں پر دم کیا جائے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو دم کیا کرتے تھے،صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات سے دم کیا کرتے تھے:

"‌أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ."

تاج العروس من جواهر القاموس ميں ہے:

"(والصارم: السيف القاطع)."

(الجزء 32،ج:32،ص:499،ط: دار احياء التراث)

تهذيب اللغة ميں ہے:

"وسيفٌ ‌صارِمٌ: أَي: قَاطع."

(ابواب الصاد والراء،ج:12،ص:131،ط:دار احياء التراث)

اسد الغابة في معرفة الصحابة ميں هے:

"ويقال: ‌أصيرم، واسمه: عمرو بن ثابت بن وقش بن زغبة بن زعوراء بن عبد الأشهل بن جشم بن الحارث بن الخزرج بن عمرو بن مالك بن الأوس الأنصاري الأوسي الأشهلي.قتل يوم أحد، وشهد له النبي صلى الله عليه وسلم بالجنة، وسيذكر في عمرو، إن شاء الله تعالى، أتم من هذا.أخرجه ابن منده، وأبو نعيم."

(حرف الألف،باب الهمزة والصاد وما يثلثهما،ج:1،ص:252،ط:دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

"عن أبي هريرة، أنه كان يقول: أخبروني عن رجل دخل الجنة، ولم يصل لله عز وجل صلاة، فإذا لم يعرفه الناس، يقول ‌أصيرم بني عبد الأشهل: عمرو بن ثابت بن وقش،وذلك أنه كان يأبى الإسلام، فلما كان يوم أحد بدا له في الإسلام فأسلم، ثم أخذ سيفه فأثبتته الجراح، فخرج رجال بني عبد الأشهل يتفقدون رجالهم في المعركة، فوجدوه في القتلى في آخر رمق، فقالوا: هذا عمرو، فما جاء به؟ فسألوه: ما جاء بك يا عمرو؟ أحدبا على قومك أم رغبة في الإسلام؟ فقال: بل رغبة في الإسلام، أسلمت وقاتلت حتى أصابني ما ترون، فلم يبرحوا حتى مات، فذكروه لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " إنه لمن أهل الجنة. "

(حرف العين،باب العين الميم،ج:4،ص:190،ط:دار طوق النجاة)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌ابن عباس رضي الله عنهما قال «كان النبي صلى الله عليه وسلم يعوذ الحسن والحسين ويقول إن أباكما كان يعوذ بها إسماعيل وإسحاق أعوذ بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة ومن كل عين لامة."

(كتاب أحاديث الأنبياء،ج:4،ص:147،ط: دار طوق النجاۃ)

فقط والله علم


فتوی نمبر : 144311101001

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں