بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شعائر اسلام کا مفہوم/ کیا قادیانیوں کو شعائر اسلام استعمال کرنے کا حق ہے؟


سوال

مندرجہ ذیل جملے شعائر اسلام میں آتے ہیں یا نہیں؟اور لقب سید اور مندرجہ ذیل جملے کیا قادیانی استعمال کرسکتے ہیں؟ اور قاديانی مندرجہ ذيل جملے استعمال كرتے ہيں تو اس كا كيا حكم ہے؟

1. بسم الله الرحمن الرحيم

2. نحمده و نصلی على رسولہ الكريم 

3. ہو الناصر

نيز یہ بھی بتائیں کہ مینار شعائر اسلام میں سے ہیں یا نہیں؟

جواب

جواب سے پہلے ’’شعائرِ اسلام‘‘ کا مفہوم واضح کیا جاتا ہے، ’’شعائر‘‘ کالفظ ’’شعیرہ‘‘ یا ’’شعارہ‘‘ کی جمع ہے، جس کے معنی  ہیں کسی چیز کی وہ مخصوص علامت جس سے اس کی پہچان ہو، لہذا ’’شعائر اسلام‘‘ سے مراد اسلام کی وہ مخصوص علامات ہیں جن سے کسی شخص کا اسلام معلوم ہو اور جو شخص ان علامات کا اظہار کرے اسے مسلمان سمجھاجائے اور اسلامی وسماجی معاملات میں اس کے ساتھ مسلمانوں والا برتاؤ کیا جائے، جیسا کہ سابق مفتئ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھا ہے: 

’’لفظ شعائر جس کا ترجمہ نشانیوں سے کیا گیا ہے، شعیرۃ کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں: علامت، اسی لیے شعائر یا شعیرہ اس محسوس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کی علامت ہو، شعائر اسلام ان اعمال و افعال کو کہا جائے گا جو عرفاً مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور محسوس و مشاہد ہیں، جیسے نماز، اذان، حج، ختنہ اور سنت کے موافق داڑھی وغیرہ۔‘‘

(سورۂ مائدہ، آیت:2، ج:3، ص: 18)

ہدایہ کی شرح ’’البنایۃ‘‘ میں شعائر کا مفہوم یوں لکھاگیا ہے: 

"(شعائر الشرع وأحكامه) ش: الشعائر... وهو جمع شعارة، وقال الأصمعي: جمع شعيرة، وإليه مال السراج، والأولى هو الأول؛ لأن الشعيرة واحدة الشعير الذي هو من الحبوب؛ والشعيرة أيضا: البدنة تهدى. والشعارة كل ما جعل علما لطاعة الله تعالى. قال الجوهري: الشعائر: أفعال الحج، وكل ما جعل علما لطاعة الله عز وجل. ويقال: المراد بها: ما كان أداؤه على سبيل الاشتهار، كأداء الصلاة بالجماعة وصلاة الجمعة والعيدين، والأذان، وغير ذلك مما كان فيه اشتهار."

(مقدمة الكتاب، 1 / 114، ط: دار الكتب العلميه، بيروت)

’’شعائر، شعارہ کی جمع ہے ...اور شعارہ ہر اس امر کو کہتےہیں جو اطاعت خداوندی کی علامت ہو،  جوہری کہتے ہیں: شعائر ، افعال حج اور ہر اس امر کو کہتےہیں جو اطاعت خداوندی کی علامت ہو، اور اس سے مراد ہر وہ امر بھی ہوسکتا ہے جس کی ادائیگی علانیہ کی جاتی ہو، مثلا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا، جمعہ و عیدین کی نمازیں، اذان وغیرہ اور وہ عبادات جن کی ادائیگی علانیہ کی جاتی ہو۔‘‘

لہذا جب  شعائر اسلام ان اعمال و افعال کو کہا جاتا ہےجو عرفاً مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں، اس لیے شرعی طور پر کسی قادیانی کو شعائر اسلام استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالی مشرکین کو مسجد کی تعمیرکا حق نہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ ."﴿التوبة: ١٧﴾

ترجمہ:

’’مشرکین کی یہ لیاقت ہی نہیں کہ وہ اللہ تعالی کی مسجدوں کو آباد کریں، جس حالت میں وہ خود اپنے کفر کا اقرار کررہے ہیں،ان لوگوں کے سب اعمال اکارت ہیں اور دوزخ میں  وہ لوگ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

اس آيت ميں مشرکین کو کافر ہونے کی وجہ سے مسجد کی تعمیر کا حق ہونے سے محروم قراردیا گیا، کیوں کہ کافر ہونا اور مسجد تعمیر کرنا دونوں ایک دوسرے کے منافی ہیں، امام ابوبکرالجصاص رحمہ اللہ احکام القرآن میں لکھتے ہیں:

‌"عمارة ‌المسجد تكون بمعنيين أحدهما زيارته والسكون فيه والآخر ببنائه وتجديد ما استرم منه ... فاقتضت الآية منع الكفار من دخول المساجد ومن بنائها وتولي مصالحها والقيام بها لانتظام اللفظ للأمرين."

(4/ 278، ط: دار إحياء التراث العربي)

’’مسجد كی آبادی كی دو صورتیں ہیں: مسجد کی زیارت کرنا اور اس میں رہنا، اور دوسری صورت  اس کو تعمیر کرنا اور مرمت کرنا... پس یہ آیت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ کوئی کافر نہ مسجد میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ اس کا بانی و متولی اور منتظم ہوسکتا ہے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ جب مدینہ منورہ کے منافقین نے مسجد ضرار تعمیر کی اور اس کے ذریعے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی ہدایت پر اسے گرانے اور زمین بوس کرنے کا حکم صادر فرمایا اور یوں کفار و منافقین کو مسلمانوں کا شعار یعنی مسجد کو استعمال کرنے سے روک دیا، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

"وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ ﴿التوبة: ١٠٧﴾لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ."﴿التوبة: ١٠٨﴾

ترجمہ:

’’اور بعضے ایسے ہیں جنہوں نے ان اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کی باتیں کریں اور ایمان داروں میں تفریق ڈالیں، اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس کے قبل سے خدا و رسول کا مخالف ہے، اور قسمیں کھاویں گے کہ بجز بھلائی کے اور ہماری کچھ نیت نہیں اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں، آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہوں، البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں، اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر کبیر امام رازی رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تفسير تفسیررازی ( التفسير الكبير) میں لکھتے ہیں:

"قال المفسرون: إن المنافقين لما بنوا ذلك المسجد لتلك الأغراض الفاسدة عند ذهاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى غزوة تبوك، قالوا: يا رسول الله بنينا مسجدا لذي العلة والليلة الممطرة والشاتية، ونحن نحب أن تصلي لنا فيه وتدعو لنا بالبركة. فقال عليه السلام: إني على جناح سفر وإذا قدمنا إن شاء الله صلينا فيه، فلما رجع من غزوة تبوك سألوه إتيان المسجد فنزلت هذه الآية، فدعا بعض القوم وقال: انطلقوا إلى هذا المسجد الظالم أهله، فاهدموه وخربوه، ففعلوا ذلك وأمر أن يتخذ مكانه كناسة يلقى فيها الجيف والقمامة." 

(سورة التوبة، 16/ 147، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

’’منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوۂ تبوک پر تشریف لے جانے کے وقت  اغراض فاسدہ کے لیے مسجد تعمیر کی  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہم نے بیماروں، بارش و سردی کی راتوں میں مسجد (قبا) نہ جاسکنے والوں کے لیے یہ مسجد بنائی ہے، ہماری خواہش ہے کہ آپ اس میں نماز پڑھیں اور ہمارے لیے برکت کی دعا کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر سے واپسی پر نماز پڑھنے کا وعدہ فرمالیا، جب آپ غزوۂ تبوک سے واپس ہوئے تو منافقین نے دوبارہ درخواست کی، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں،اس کے بعد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو  بھیجااور حکم دیا کہ وہ اس کو منہدم و ویران کردیں اور اس کی جگہ کو کچرا کنڈی میں بدل دیں۔‘‘

اور نہ صرف یہ کہ کفار (قادیانی وغیرہ) کو شعائر اسلام استعمال کرنے کی اجازت نہیں بلکہ مسلمانوں کے ملک میں رہتے ہوئے انہیں اپنے باطل عقائد وافکار اوراعمال و رسومات کا برملا پرچار کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی ان کو اپنے ان باطل اور خلاف اسلام عقائد و افکار اوراعمال ورسومات کی نشر و ترویج اور دعوت اور تبلیغ کی اجازت ہے، جيساکہ تفسير ابن كثير  میں عیسائیوں کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک معاہدہ نقل کیا گیا ہے:

"بسم الله الرحمن الرحيم، هذا كتاب لعبد الله عمر أمير المؤمنين من نصارى مدينة كذا وكذا، إنكم لما قدمتم علينا سألناكم الأمان لأنفسنا وذرارينا  وأموالنا وأهل ملتنا وشرطنا لكم على أنفسنا ألا نحدث في مدينتنا ولا فيما حولها ديرا ولا كنيسة، ولا قلاية ولا صومعة راهب، ولا نجدد ما خرب منها ... ولا نعلم أولادنا القرآن، ولا نظهر شركا، ولا ندعو إليه أحدا ... ولا نتشبه بهم في شيء من ملابسهم، في قلنسوة، ولا عمامة، ولا نعلين، ولا فرق شعر، ولا نتكلم بكلامهم ... ولا ننقش خواتيمنا بالعربية، ولا نبيع الخمور ... وألا نظهر الصليب على كنائسنا، وألا نظهر صلبنا ولا كتبنا في شيء من طرق المسلمين ولا أسواقهم، ولا نضرب نواقيسنا في كنائسنا إلا ضربا خفيا، وألا نرفع أصواتنا بالقراءة في كنائسنا في شيء من حضرة المسلمين، ولا نخرج شعانين ولا باعوثا..."

(4/ 133، ط: دار طیبة) 

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ خط اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر کی طرف فلاں شہر کے عیسائیوں کی طرف سے ہے، جب آپ ہمارے شہر آئے تو ہم نے اپنے لئے اپنی اولاد ،  مال اور اہل دین کے لیے امان طلب کرتے ہوئے اپنے اوپر یہ شرطیں عائد کی ہیں کہ آج کے بعد ہم اپنے شہر اور اس کےگردو نواح میں کوئی عبادت خانہ، کنیسہ، گرجا اور راہب کی جھونپڑی ازسر نوتعمیر نہیں کریں گے اور خراب شدہ گرجوں کومرمت نہیں کریں گے...  نہ اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دیں گے، ہم کھلےعام شرک نہیں کریں اور نہ کسی کوشرک کی دعوت دیں گے...  ہم لباس، ٹوپی، عمامے،جوتوں اور بالوں کی مانگ نکالنے میں ان کی مشابہت اختیارنہیں کریں گے اور نہ ان جیسی باتیں کریں گے... اپنی انگوٹھیوں پر عربی میں نقش نہیں کرائیں گے اور نہ شراب فروخت کریں گے... اور اپنے کنیسہ پر صلیب نصب نہیں کریں گے، نہ ہی مسلمانوں کے راستوں اور منڈیوں میں اپنی کتاب اور صلیب ظاہر کریں گے، اور کنیسہ میں ناقوس خفیہ آواز کے ساتھ بجائیں گے اور مسلمانوں کی موجودگی میں کنیسہ میں بھی اپنی کتاب بلند آواز سے نہیں پڑھیں گے، اور شعانین و باعوث (عیدیں) نہیں نکالیں گے...الخ‘‘

نیز امام ابویوسف رحمہ اللہ کی کتاب ’’الخراج لأبی يوسف‘‘ میں ہے:

"ويمنعوا من أن يحدثوا بناء ‌بيعة أو كنيسة في المدينة إلا ما كانوا صولحوا عليه وصاروا ذمة وهي ‌بيعة لهم أو كنيسة؛ فما كان كذلك تركت لهم ولم تهدم."

(ص، 140، فصل في لباس أهل الذمة و زيهم، ط: المكتبة الأزهرية)

’’نیاگرجا اور کنیسہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی البتہ جو معاہدہ کے وقت گرجا موجود ہو گا اس کو گرایا نہ جائے گا ۔‘‘

اسی کتاب میں آگے  صفحہ: 160 پر لکھا ہے:

"وأما ‌ما ‌أحدث من بناء بيعة أو كنيسة فإن ذلك يهدم." ‌‌(فصل: في الكنائس والبيع والصلبان، ط:المکتبة الأزهرية)

’’جو نیا گرجا یا کنیسہ بنایا جائے تو وہ گرادیا جائے گا۔‘‘

جب یہود ونصاریٰ کو مسلم ملک میں اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت ، اپنے لٹریچر کو سرعام بازار میں لانے، صلیب لٹکا کر چلنے، گرجا پرصلیب گاڑنے اور گرجا کے اندر بلند آواز سے دعا کرنے اور انجیل پڑھنے اور ازسر نوگرجا تعمیر کرنے یا گرے ہوئے گرجا کی مرمت کرنے کی اجازت نہیں،اور مسلمانوں جیسا لباس و ٹوپی اور عمامہ  پہننے، مسلمانوں جیسے بال رکھنے، ان کے جیسی باتیں کرنے کی اجازت نہیں اور نہ ہی ان کو اپنے تہوار کھلے گرجاؤں میں منانے کی اجازت ہے، حالانکہ وہ اہل کتاب ہیں یعنی کسی وقت وہ سچے دین و مذہب پر رہ چکے ہیں تو پھر مسلم ملک میں قادیانیوں  کو جو کہ مرتدین کی اولادہیں اور شرعی اور قانونی طور پر اسلام سے خارج اور کافر ہیں، کو مساجد کی طرز پر اپنے عبادت خانے تعمیر کرنےاور ان کو مساجد کے نام سے موسوم کرنے اور بلانے اور ان پر مساجد جیسے مینار تعمیر کرنےکی اجازت کیونکر ہوسکتی ہے؟

اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘چونکہ اسلامی کلمات میں سے ہے، اور دینِ اسلام پر ہونے کی پہچان کے طور پر استعمال ہوتا ہے،قادیانی اسے استعمال کر کے عام مسلمانوں کو اپنا مسلمان ہونا باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ان کا اپنے آپ کو مسلمان باور کرانا شرعی و قانونی طور پر منع ہے،لہذا انہیں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘  کو اپنی تقریر و تحریر میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

نیزقادیانیوں کے زعم میں  ان کا مزعومہ نبی اسی مقام و مرتبے پر فائز ہے جو مسلمانوں کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، جیسا کہ مرزا بشیر احمد ایم اے لکھتاہے:

’’ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آتی کیوں کہ مسیح موعود (مرزا قادیانی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے: "صار وجودي وجوده" (میرا وجود اس کا وجود ہوگیا) نیز "من فرق بيني وبين المصطفي فما عرفني و مارأى"( جس نے میرے اور محمد مصطفی کے درمیان فرق کیا، اس نےنہ  مجھے پہچانا اور نہ دیکھا)۔ اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالی کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا، جیسا کہ آیت "آخرين منهم"سے ظاہر ہے، پس مسیح موعود خود محمد رسول اللہ ہےجو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے، اس لیے ہم کو کسی کلمہ کی ضرورت نہیں، ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتاتو ضرورت پیش آتی، فتدبروا۔‘‘

(کلمۃ الفصل، ص: 158، از: مرزا بشیر احمد ایم اےابن مرزا قادیانی)

بنا بریں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ قادیانی’’نحمدہٗ و نصلی علی رسولہ الکریم‘‘ میں رسول سے اپنا رسول مراد لیتے ہیں اور ’’رسول‘‘ جیسی مخصوص اسلامی اصطلاح اپنے مزعومہ نبی کے لیے استعمال کرتے ہیں، لہذا یہ قادیانیوں کا یہ جملہ کہنادجل و فريب ہے جوكہ  شرعی اور قانونی طور پر جرم ہے۔ 

 نیز ہمارے ہاں’’سید‘‘ اور ’’سادات‘‘ کا لفظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ان خاندانی اور خونی رشتہ داروں (بالخصوص اولاد فاطمہ رضی اللہ عنہم) کے لیے استعمال ہوتاہے، جو خاتم النبیین حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دین کو دین، بلکہ آخری دین کے طور پر دل و جان سے مانتے ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وجہ سے آپ کے خاندان کا یہ اعزاز ہے، یہ اعزاز دینی بھی ہے اور نسبی بھی ہے، دین سے عاری یا نبی کے نسب  سے تعلق نہ رکھنے والوں کے لیے ’’سید‘‘ کا لفظ استعمال کرنا نا جائز ہے۔

 نیز ’’ہو الناصر‘‘ کا لفظ قادیانی گروہ کی طرف سے براعتِ استہلال (پس منظر میں مخفی رکھے گئے مقصدِ مُوہِمکی ترجمانی) کے طور پر استعمال کرنے کا ایہام پایا جاتا ہے، جب کہ ’’الناصر‘‘ اللہ تعالی کی صفت ہے، اور کسی صحیح بات کو غلط مقصد کے لیے استعمال کرنا بھی حرام ہوتا ہے، چناں چہ امر واقعہ یہ ہے کہ برِصغیر میں نبوت کے ایک جھوٹے دعوے دار مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار اس کے مختلف دعوؤں کی وجہ سے اسے نبی مانتے ہیں اور اسے مسلمانوں کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے درجہ میں باور کرانے کے لیے اسلامی شناختوں کو استعمال کرتے ہیں، جب کہ قادیانی گروہ (لاہوری و مرزائی) کا کافر ہونا شریعتِ اسلامیہ اور آئینِ پاکستان میں واضح ہو چکا ہے، اس لیے قادیانیوں کا مذکورہ شرعی کلمات و اصطلاحات یا اس قسم کی دیگر اسلامی شناختوں کو استعمال کرنا اسلامی شریعت اور ملکی قانون کی رو سے جرم ہے، ایسے لوگ عام کفار کے مقابلے میں زیادہ سخت تادیب، سر زنش اور قرارِ واقعی سزا کے مستحق ہیں۔

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101800

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں