شیخ ابن تیمیہ کو کون سے مسائل میں جمہور علماء سے اختلاف تھا خصوصاً علماء احناف سے؟
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ آٹھویں صدی ہجری میں مشہور عالم گزرے ہیں، البتہ متعدد اصولی و فروعی مسائل میں انہوں نے جمہورِ امت سے ہٹ کر موقف اپنائے ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
1) نصوص میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات عالی کے لیے استواء علی العرش، نزول الی السماء، یا اللہ تعالیٰ کے لیے ید، وجہ، ساق وغیرہ جیسے وارد متشابہ صفات و الفاظ سے ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان کا حقیقی معنی مراد لیتے ہیں اور ان صفات و الفاظ کو بلا تاویل اور بلا تکییف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے مانتے ہیں اور ان الفاظ و صفات کی وہ حقیقت ثابت کرتے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے شایانِ شان ہے۔
2) ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک کسی قبر کی زیارت کے لیے( بشمول روضہ اطہر علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) اہتمام سے سفر کرنا جائز نہیں ہے ، البتہ جو لوگ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی نیت سے آئیں وہ قبرِ انور کی زیارت کر سکتے ہیں۔ اس مسئلہ میں وہ مشہور حدیث "لا تشد الرحال إلا إلي ثلاثة مساجد" سے استدلال کرتے ہیں۔
3) ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقوں کوابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک طلاقِ رجعی شمار کرتے ہیں خواہ ایک لفظ میں دی گئی ہوں یا الگ الگ الفاظ میں دی گئی ہوں ۔
4) حلف بالطلاق کے مسئلہ میں حانث ہونے کی صورت میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی بلکہ صرف کفارۃ یمین لازم ہوتا ہے، کیوں کہ حلف بالطلاق کو وہ حلف کی ایک قسم مانتے ہیں مثلاً کسی نے کہا کہ میں ضرور فلاں کام کروں گا نہیں تو طلاق (علي الطلاق لأفعلن كذا) اور پھر اس نے وہ کام نہ کیا تو طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ صرف قسم توڑنے کا کفارۃ دینا ہوگا۔
5) ابن تیمیہ رحمہ اللہ زکات کے کچھ مسائل میں بھی جمہور سے اختلاف کرتے ہیں مثلاً بعض صورتوں میں اصول و فروع کو زکات دینے کو جواز، فاسق و فاجر کوزکات دینے کا عدم جواز، خمس میں سے مقرر شدہ حصہ نہ ملنے کی صورت میں سادات کے لیے زکات لینے کا جواز وغیرہ۔
6) ابن تیمیہ رحمہ اللہ علوم شرعیہ کی تفہیم اور تعلیل میں منطقی اصطلاحات اور منطقی طریقۂ استدلال کو غیر ضروری بلکہ ناجائز سمجھتے ہیں اور یونانی علمِ منطق کو فکر اسلامی پر دخیل اور اوہام کا مجموعہ قرار دیتے ہیں۔
ان کے علاوہ بھی ان کے متعدد تفردات ہیں، تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے:
جلاء العینین میں ہے:
"لم يؤثر عنه فسق ولا بدعة اللهم إلا هذه الأمور التي ضيق عليه لأجلها وليس شيء منها إلا ومعه دليله من الكتاب والسنة وآثار السلف فمثل هذا الشيخ عزيز الوجود في العالم ومن يطيق أن يلحق شأوره في تحريره وتقديره والذين ضيقوا عليه ما بلغوا معشار ما آتاه الله تعالى، وإن كان تضييقه ذلك ناشئاً من اجتهاد ومشاجرة العلماء في مثل ذلك ما هي إلا كمشاجرة الصحابة - رضي الله عنهم - فيما بينهم والواجب في ذلك كف اللسان إلا بخير - انتهى".
(ترجمة مسند الوقت أحمد ولى الله الدهلوي، ص:60، ط: مطبعة المدني)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508101553
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن