بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 رجب 1446ھ 15 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

غیر عالم شیخ کے ہاتھ بیعت ہونے کا حکم/شیخِ کامل کے اوصاف


سوال

غیرعالم شخص کے ہاتھ پہ بیعت کی جاسکتی ہے؟  اگر غیرعالم شخص کے ہاتھ پر بیعت کرسکتے ہیں تو اس غیرعالم شخص میں کیا کیا نشانیاں ہونی چاہیے،  جسے دیکھ کر  غیرعالم کے ہاتھ بیعت کرسکوں؟ نیزاس غیرعالم کاکس  سلسلےسے منسلک ہوناضروری ہے؟ 

جواب

کسی بھی متبع سنت وشریعت بزرگ سے بیعت ہونا جائز ہے، جو  کسی بھی معتبر شیخ سے تزکیہ باطن کرچکا ہو اور خود بھی متبع سنت اور  پابندِ شریعت ہو اور  قرآن و سنت کا ضروری علم بھی  رکھتا ہو،  اگرچہ درسِ نظامی کامروّجہ نصاب روایتی طور پر مکمل نہ بھی کیا ہوتو  ایسے بزرگ کے ہاتھ پہ اصلاحِ نفس کے ارادے سے بیعت کرنا  جائز ہے،  مزید یہ کہ ایسا شیخ   جو بقدر ضرورت علم دین رکھتا ہو ، عقائد حقہ، اخلاق فاضلہ، اعمال صالحہ کے ساتھ متصف ہو ، حبِ جاه ، حبِ مال ، ریاء، کبر ، حسد و غیره اخلاق رذیلہ کی اصلاح کسی شیخ محقق کی تربیت میں رہ کر کر چکا ہو اور اس شیخ محقق نے اس پر اعتماد کیا ہو ،اور  بدعات، رسومات سے پر ہیز کرتا ہو، متبعِ سنت ہو تو اس شیخ کے ہاتھ پربیعت کرنا نافع ثابت ہوسکتا ہے ۔
نیز  ایسا شیخ جس کے ساتھ مرید  کی ذہنی اور طبعی ہم آہنگی ہو چاہے وہ شیخ سلاسلِ حقہ میں سے کسی بھی سلسلے سے منسلک ہو،  اس  کےہاتھ بیعت ہوکر  اپنی اصلاح کرواسکتے ہیں۔ 

تلازم الشریعہ والطریقہ میں ہے:

"فشرط من ياخذ البيعة أمور، أحدها: علم الكتاب والسنة... والشرط الثاني: العدالة والتقوى، فيجب أن يكون مجتنبًا عن الكبائر غير مصر علي الصغائر... والشرط الثالث: أن يكون زاهدًا في الدنيا راغبًا في الاخرة، مواظبًا على الطاعات المؤكدة والأذكار المأثورة ... والشرط الرابع: أن يكون آمرًا بالمعروف ناهيًا عن المنكر... والشرط الخامس: أن يكون صحب المشائخ وتأدب بهم دهرًا طويلًا وأخذ منهم النور الباطن و السكينة."

(ص؛130، از  شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی رحمہ اللہ، ط:مکتبہ حرمین، دبئی)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"چاروں سلسلوں میں بیعت کی اجازت دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کو طب یونانی ، ہومیو پیتھک ، ایلو پیتھک ، ویدک میں مہارت ہو جانے پر جملہ طرق معالجہ میں اس کو ڈگری دے دی جائے اور وہ مریضوں کے امراض، طبائع ، مواسم کی رعایت کرتے ہوئے جو طریقہ علاج جس کے حق میں مفید سمجھے اس کو اختیار کرے ، ان طرق معالجہ میں اختلاف کثیر کے باوجود مقصود سب کا ایک ہے."

(کتاب السلوک والاحسان،  ج:4، ص:327، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510102216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں