بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 ذو القعدة 1446ھ 12 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

مرتہن کا شئے مرہون راہن کی اجازت کے بغیر مارکیٹ ویلیو سے کم پر فروخت کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے  کچھ لوگوں سے ادھار پر تقریباً پانچ کروڑ روپے کا مال لیا تھا، قرض خواہوں میں سے ایک کی رقم تقریباً  4 کروڑ  روپے تھی، میں نے وہ مال آگے 5 کروڑ 30 لاکھ روپے میں بیچ دیا، خریدار نے آدھا مال وصول کیا تھا، لیکن کوئی رقم نہیں دی تھی بلکہ کہا تھا بقیہ آدھا مال اٹھاؤں گا تو پوری رقم دے دوں گا، ابھی 5 مہینے کا عرصہ گزر گیا ہے اس نے کوئی رابطہ نہیں کیا، اب میں نے جن لوگوں سے مال لیا تھا ان میں سے سب سے زیادہ رقم جس کی تھی اس نے مجھ سے اپنے پیسوں کا مطالبہ کیا تو میں نے کہا ابھی میرے پاس پیسے نہیں ہیں، آپ میرے پاس موجود (آدھا)مال کو اپنے پوری رقم کے بدلے امانت  رکھ لو! جب میں آپ کو پیسے دوں گا تو  مال واپس لے لوں گا، لیکن اس نے میری اجازت کے بغیر کم قیمت میں اس مال کو بیچ دیا، اور کہہ رہا ہے کہ مجھے مال بیچ کر جتنی رقم ملی ہے اس کے علاوہ باقی رقم ادا کرو!  حالانکہ مذکورہ مال  بطورِ امانت رکھواتے وقت میں نے  کہا تھاکہ یہ مال پوری رقم کے بدلے آپ کے پاس امانت ہے، البتہ اگر خریدار  اپنے لیے ہوئے مال کی قیمت ادا کردیتا ہے تو اس مال کی قیمت سوا دو  کروڑ روپے  شمار کروں گا۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے : کیا اس شخص کا میری اجازت کے بغیر اس چیز کو مارکیٹ ویلیو سے کم میں بیچنا اور  اب مجھ سے بقیہ رقم کا مطالبہ کرنا جائز ہے؟

تنقیح: کیا مذکورہ مال رکھواتے ہوئے قرض کی ادائیگی کے لیے کو وقت مقرر کیا گیا تھا ؟
جوابِ تنقیح: ہمارے درمیان قرض کی ادائیگی کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا، بلکہ میں نے اسے کہا تھا کہ میں ایران سے کچھ مال خرید کر  اس کے ساتھ ملاکر بیچوں گا، پھر  آپ  کا قرض ادا کروں گا  ، ابھی میں ایران میں گیا ہی تھا کہ اس نے مال بیچ دیا۔
ملحوظ رہے کہ جو مال میں نے امانت رکھوائی تھی اس کی مارکیٹ ویلیو سوا دو کروڑ ہے، اور قرض خواں نے اسے ایک کروڑ پندرہ لاکھ  میں بیچا ہے۔  

جواب

صورتِ مسئولہ میں  قرض کے بدلے رکھوائے گئے مذکورہ مال رہن(گروی) شمار ہوگا،اورمرتہن (قرض خواہ)کا شئ مرہون (گروی رکھوائی گئی چیز) کو راہن(مالک/سائل) کی اجازت کے  بغیر آگے کسی کو فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں تھا، تاہم جب مذکورہ شخص نے سائل کی اجازت  کے بغیر مذکورہ مالِ مرہون کو مارکیٹ قیمت سے کم قیمت پر فروخت کر دیاتو مارکیٹ ویلیو سے کم پر بیچنے  کی وجہ سے مارکیٹ ویلیو کے بقدر قیمت کا ضامن ہوگا ، یعنی  سائل کے ذمہ واجب الادا قرض میں سے مذکورہ مال کی مارکیٹ ویلیو کے بقدر  رقم منہا  کر کے بقیہ رقم کی ادائیگی سائل کے ذمہ لازم ہوگی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"عقد ‌الرهن يفيد ملك الحبس لا ملك الانتفاع، فإن انتفع به فهلك في حال الاستعمال يضمن كل قيمته؛ لأنه صار غاصبا وليس له أن يبيع ‌الرهن ‌بغير ‌إذن الراهن؛ لأن الثابت له ليس إلا ملك الحبس، فأما ملك العين فللراهن، والبيع تمليك العين فلا يملكه المرتهن من غير إذن الراهن."

(كتاب الرهن، ج:6، ص:146، ط:دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي المحيط، ولو ‌باع ‌المرتهن زوائد ‌الرهن ‌بغير ‌إذن الراهن أو القاضي لم يجز بيعه ويضمن قيمته."

(‌‌كتاب الرهن، ج:8، ص:272، ط:دار الكتاب الإسلامي)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے :

"‌إذا ‌باع ‌المرتهن ‌الرهن بإذن الراهن يرد المرتهن، ما زاد على الدين ولو كان الدين زائدا على الثمن يرد الراهن زيادة الدين، وحملناه على البيع."

(کتاب الرهن، ج:12، ص:482، دارالکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا ‌هلك ‌المغصوب في يده، ولم يعلم قيمته يوم الغصب فإنه يقضى عليه بما يقر من قيمته يوم الغصب فعلى قياس هذه المسألة ينبغي أن يقال في مسألة التجهيل إذا لم يشهد الشهود بقيمة البضاعة يوم التجهيل وشهدوا بقيمتها يوم الإبضاع أن يقضي بقيمتها يوم الإبضاع، وإن قالوا: لا نعرف قيمتها أصلا يقضى بما يقر من قيمتها يوم الإبضاع وهو الصحيح."

(كتاب المحاضر والسجلات، ج:6، ص:218، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102708

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں