بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شہید مسجد میں نمازوں اور اعتکاف کا ایک مسئلہ


سوال

ہمارے علاقے کی مسجد از سرنو تعمیر کے لیے شہید کی گئی ہے، جس کی وجہ سے حدودِ مسجد میں پنج وقتہ نمازیں، جمعہ، اور عیدین ادا کرنا ناممکن ہے، البتہ حدودِ مسجد سے باہر مدرسہ کی چھت پر پنج وقتہ نمازیں، جمعہ و عیدین ادا کی جاتی ہیں، نیز مدرسے کی چھت کا چھپرہ جو تقریباً آدھی صف پر مشتمل ہے حدودِ مسجد میں شامل ہے۔

مذکورہ تفصیل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے درج ذیل جزئیات کی وضاحت مطلوب  ہے:

(الف) حدودِ مسجد سے باہر  حصے میں جماعت کے ساتھ  پنج وقتہ نمازیں، جمعہ وعیدین ادا کرنا درست ہے یا نہیں؟ یا اس کے علاوہ محلے کی دوسری مسجد میں جماعت کی نمازیں ادا کرنا افضل ہے؟

(ب) مدرسے کے اُس حصے میں جو حدودِ مسجد سے خارج ہے، اعتکافِ مسنون ادا ہوگا یا نہیں؟ یا پھر مدرسے کا وہ حصہ جو مسجد کی حدود میں شامل ہے اس میں اعتکاف ادا کرنا ضروری ہوگا؟ نیز کیا  مذکورہ صورتِ حال  میں اہل محلہ سے اعتکاف ساقط ہوجائے گا یا اس کے علاوہ دوسری مسجد میں اعتکاف کرنا ضروری ہوگا؟

(ج) اگر شہید مسجد کا اندرونی حصہ ایامِ اعتکاف سے پہلے اس قدر تیار ہوجائے کہ جس میں ٹھہرنا ممکن ہو، لیکن تعمیراتی کام کی وجہ سے پنج وقتہ نمازیں ادا کرنا مشکل ہو تو کیا اس صورت میں مسجد  کے اندرونی حصے میں اعتکاف  کرنا ضروری ہوگا؟ نیز ایسی صورت میں کیا معتکفین حدودِ مسجد میں رہتے ہوئے اپنی الگ جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں یا حدودِ مسجد سے خارج، مدرسے میں امام ِ راتب کی اقتداء میں جماعت کی نماز ادا کریں؟

بطورِ تمثیل مسجد ومدرسہ کا نقشہ ملاحظہ فرمائیں:

وضاحت: سائل نے بتایا کہ مذکورہ مسجد شہر کراچی میں واقع ہے، اور اُس علاقے میں  مذکورہ مسجد کے علاوہ  دیگر ایسی مساجد بھی  موجود ہیں جہاں جمعہ پڑھا جاتا ہے اور اعتکاف کیا جاتا ہے۔

جواب

رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے عبادت کا خاص مہینہ ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر خصوصی  انعام وفضل  ہوتا ہے اور عبادتوں کا ثواب کئی گنا بڑھا کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے  اس مہینے میں  مسلمانوں کے عبادتوں کی طرف میلان اور ذوق میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اس ماہ میں عبادتوں  کے لیے خاص اہتمام  کرتے ہیں، لہٰذا  اولاً تو مذکورہ مسجد کی انتظامیہ   کو چاہیے  کہ وہ رمضان المبارک  میں مسجد میں تعمیرات کا کام رکوا دیں اور  مسجد میں پنج وقتہ نمازوں، جمعہ وعیدین اور اعتکاف  کا انتظام کریں تاکہ لوگ   اس مبارک ماہ میں مسجد کی فضیلت  اور برکات  سے محروم  نہ ہوں، نیز مذکورہ نقشے کے مطابق امام کے کھڑے ہونے کی موجودہ جگہ بھی  کراہت سے خالی نہیں؛ کیوں کہ امام  کو صف کے درمیان کھڑا ہونا چاہیے، صف  کے ایک   کونے میں کھڑے ہونے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے۔

البتہ اگر  شدید مجبوری ہے اور ابھی تک شہید کردہ مسجد میں اتنی جگہ نہیں بنی کہ جس میں پنج وقتہ نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاسکیں، تو  پھر مذکورہ سوالات کے جوابات  ترتیب وار درج ذیل  ہیں:

(الف):   حدودِ مسجد سے باہر مذکورہ جگہ میں پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کرنے سے نماز درست ہوجائے گی اور جماعت کی نماز کا ثواب بھی ملے گا، لیکن مسجد میں نماز ادا کرنے کی فضیلت  حاصل نہیں ہوگی، نیز  امام کا صف کے ایک طرف کھڑا ہونا بھی مکروہ ہے۔  اسی طرح مذکورہ جگہ میں جمعہ کی شرائط  کی رعایت رکھتے ہوئے  جمعہ کی نماز  پڑھائی جائے تو جمعہ تو ادا ہوجائے گا تاہم قریب میں مسجد ہونے اور وہاں جاکر جمعہ ادا کرنے کی اجازت ہونے کی صورت میں اگر یہاں جمعہ کی نماز ادا کی گئی تو مسجد  میں جمعہ کی نماز پڑھنے  کی طرح ثواب نہیں ہوگا، اس لیے جامع مسجد میں جاکر جمعہ پڑھنا  بہتر ہے، نیز اسی طرح  اگر کوئی مجبوری یا لاچاری نہ ہوتو عید کی نماز عیدگاہ  یا بڑی جامع مسجد میں بڑے اجتماع میں ادا کرنا شرعاً مطلوب  ہے، تاہم عید کی نماز صحیح ہونے کے لیے مسجد ہونا شرط نہیں، اصل مطلوب مسلمانوں کا بڑا اجتماع ہے، لہٰذا  عیدین کی نمازیں مذکورہ جگہ میں پڑھی جائیں تو بھی  درست ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) ... (وأقلها اثنان) واحد مع الإمام ولو مميزا أو ملكا أو جنيا في مسجد أو غيره.

قال عليه في الرد: (قوله في مسجد أو غيره) قال في القنية: واختلف العلماء في إقامتها في البيت والأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا في الأفضلية. اهـ"

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ١ / ٥٥٤، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(فلو دخل أمير حصنا) أو قصره (وأغلق بابه) وصلى بأصحابه (لم تنعقد) ‌ولو ‌فتحه ‌وأذن ‌للناس ‌بالدخول جاز وكره.

قال عليه في الرد: (قوله وكره) لأنه لم يقض حق المسجد الجامع زيلعي ودرر"

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ٢/ ١٥٢، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي التجنيس والخروج إلى الجبانة سنة لصلاة العيد، وإن كان يسعهم المسجد الجامع عند عامة المشايخ هو الصحيح اهـ"

(كتاب الصلاة، باب العيدين، فصل  الخروج إلى الجبانة يوم العيد، ٢/ ١٧١، ط: دار الكتاب الإسلامي)

(ب) و (ج):   واضح رہے کہ  بلاضرورت  مردوں کا ایسی مسجد کے علاوہ جہاں پنج وقتہ  نمازیں ادا کی جاتی ہوں،  کسی اور جگہ اعتکاف   کرنا   جائز نہیں ہے، لہٰذا مذکورہ مدرسے کا وہ حصہ  جو  مسجد کی حدود سے باہر ہے وہاں اعتکاف کرنا درست نہیں  ہوگا، چناں چہ مذکورہ صورتِ حال میں    مسجد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ  رمضان کے  دنوں میں  عارضی طور پر مسجد میں تعمیراتی کام  موقوف کر دیا جائے  اور کچھ حصے کی صفائی کروا کر وہاں امام صاحب اور نمازیوں کے لیے جگہ بنا دی جائے اور پنج وقتہ نمازوں اور جمعہ وعیدین  کی ادائیگی کا  اہتمام کیا جائے، اور پھر اعتکاف کی ترتیب بنائی جائے، لیکن اگر  مسجد میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی کی ترتیب نہیں بنائی جاسکتی تو پھر مذکورہ مسجد میں اعتکاف کو موقوف کردیا جائے اور اہل محلہ کو چاہیے کہ وہ محلے کی کسی اور مسجد میں اعتکاف کریں؛ کیوں کہ اعتکاف اُس مسجد میں سنت ہے، جہاں نمازِ  پنج گانہ  ادا کی جاتی ہوں۔ 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هو) لغة: اللبث وشرعا: (لبث) ... (ذكر) ولو مميزا في (مسجد جماعة) هو ما له إمام ومؤذن أديت فيه الخمس أو لا. وعن الإمام اشتراط أداء الخمس فيه وصححه بعضهم وقال لا يصح في كل مسجد وصححه السروجي، وأما الجامع فيصح فيه مطلقا اتفاقا.

قال عليه في الرد: (قوله أديت فيه الخمس أو لا) صرح بهذا الإطلاق في العناية وكذا في النهر وعزاه الشيخ إسماعيل إلى الفيض والبزازية وخزانة الفتاوى والخلاصة وغيرها، ويفهم أيضا وإن لم يصرح به من تعقيبه بالقول الثاني هنا تبعا للهداية فافهم (قوله وصححه بعضهم) نقل تصحيحه في البحر عن ابن الهمام (قوله وصححه السروجي) وهو اختيار الطحاوي قال الحبر الرملي وهو أيسر خصوصا في زماننا فينبغي أن يعول عليه والله تعالى أعلم (قوله وأما الجامع) لما كان المسجد يشمل الخاص كمسجد المحلة والعام، وهو الجامع كأموي دمشق مثلا أخرجه من عمومه تبعا للكافي وغيره لعدم الخلاف فيه (قوله مطلقا) أي وإن لم يصلوا فيه الصلوات كلها ح عن البحر وفي الخلاصة وغيرها وإن لم يكن ثمة جماعة"

(كتاب الصوم، باب الإعتكاف، ٢/ ٤٤٠، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں