بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شہید مسجد کا سامان دوسری مسجد میں لگانا


سوال

ہمارے علاقے میں ایک مسجد تنگ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر چند قدم کےفاصلے پر  سڑک  کے اوپر  دوسری مسجد کی تعمیر کی تو  کیا پہلی مسجد کا سامان مثلًا صفیں، قرآنِ مجید اور گھڑی وغیرہ اس دوسری مسجد میں استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟  جب کہ  پہلی مسجد  اب حجرے کے اندر آتی ہے، اس کو شہید کروانا ہے، اس کی زمین  ویسے چھوڑنی  ہے یا چمن وغیرہ  لگائیں؟

جواب

جس جگہ کو مسجد بنادیا جائے وہ تاقیامت مسجد ہی رہتی ہےاسے دوسرے کسی کام میں نہیں لایا جاسکتا؛ لہٰذا  بہتر تھا کہ نئی جگہ پر مسجد بنانے کے بجائے سابقہ مسجد کی توسیع کردی جاتی،  بہر حال اب اگر الگ جگہ   مسجد تعمیر کردی گئی ہے تو   سابقہ مسجد کو شہید نہ کیا جائے، بلکہ اس میں بھی نمازیں جاری رکھی جائیں، البتہ جمعہ ایک جگہ قائم کیا جائے، اور قدیم مسجد کا سامان اُسی مسجد میں استعمال کیا جائے۔

اگر یہ ممکن نہ ہوتو کم ازکم اس احاطہ کو اس طریقے سے بند کردیا جائے کہ اس کی بے حرمتی نہ ہو،  اور جس سامان کے ضیاع کا خطرہ ہو  اُسے بڑی مسجد  میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔

 "و نقل في الذخیرة عن شمس الأئمة الحلواني: أنه سئل عن مسجد أو حوض خرب، و لایحتاج إلیه لتفرق الناس عنه، هل للقاضي أن یصرف أوقافه إلی مسجد أو حوض آخر؟ فقال: نعم."

(رد المحتار، کتاب الوقف، مطلب فیما لو خرب المسجد أو غیرہ ۴؍۳۵۹ کراچی)

"و لو خرب أحد المسجدین في قریة واحدة، فللقاضي صرف خشبه إلی عمارة المسجد الآخر إذا لم یعلم بانیه ولا وارثه، وإن علم یصرفها هو بنفسه."

(البحر الرائق، کتاب الوقف / فصل في أحکام المساجد ۵؍۴۲۴)

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (4 / 359):

" (قوله: ومثله حشيش المسجد الخ ) أي الحشيش الذي يفرش بدل الحصر كما يفعل في بعض البلاد كبلاد الصعيد كما أخبرني به بعضهم، قال الزيلعي: وعلى هذا حصير المسجد وحشيشه إذا استغنى عنهما يرجع إلى مالكه عند محمد، وعند أبي يوسف ينقل إلى مسجد آخر، وعلى هذا الخلاف الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما ا هـ وصرح في الخانية بأن الفتوى على قول محمد، قال في البحر: وبه علم أن الفتوى على قول محمد في آلات المسجد، وعلى قول أبي يوسف في تأبيد المسجد ا هـ والمراد بآلات المسجد نحو القنديل والحصير بخلاف أنقاضه لما قدمنا عنه قريباً من أن الفتوى على أن المسجد لايعود ميراثاً ولايجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر". (شامي ٤/ ٣٥٩)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144108200009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں