بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شاگرد کو مارنے کی حدود


سوال

الحمدللہ اس سال میرا ایک مکتب میں تعلیمِ قرآن کے لیے تقرر ہوا ہے، میں جاننا چاہتا ہوں کہ قاری حضرات کا بچوں کو  مارنے ،سرزنش کرنے سے متعلق   شریعت میں کیا حد ہے؟

جواب

معلم یا استاد کے لیے اپنے شاگرد کی تادیب وتربیت کے واسطے اُس کو بغیر کسی چھڑی یا لکڑی کے، بچے کی طاقت اور تحمل کے موافق صرف تین تھپڑ تک مارنے کی اجازت ہے، اوراس میں بھی یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ وہ چہرے یا سر وغیرہ پر نہ مارے جائیں؛ کیوں کہ چہرے پر مارنے کی حدیث شریف میں ممانعت آتی ہے اور  اس میں نقصان کا خطرہ ہے، اگر استاد تین تھپڑوں سے یا بچے کی طاقت سے بڑھ کر اس کو تنبیہاً سرزنش کرے گا، تو شرعاً یہ جائز نہیں، قیامت میں اس سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی اور حدیث شریف کے مطابق اللہ تعالیٰ بچوں کی طرف سے استاد سے بدلہ لیں گے۔

نیز یہ حکم اس صورت میں ہے کہ شاگرد کم از کم دس سال کا ہو، اور اُس کے سرپرست کی طرف سے استاد کو مارنے کی اجازت بھی حاصل ہو، اگر بچہ دس سال سے بھی چھوٹا ہے، تو اُسے مارنے کی بالکلیہ اجازت نہیں ہوگی۔

شرح النووی علی صحیح المسلم میں ہے:

"(إذا قاتل أحدكم أخاه فليجتنب) وفي رواية إذا ضرب أحدكم وفي رواية لا يلطمن الوجه وفي رواية إذا قاتل أحدكم أخاه فليجتنب الوجه فإن الله خلق آدم على صورته قال العلماء هذا تصريح بالنهي عن ضرب الوجه لأنه لطيف يجمع المحاسن وأعضاؤه نفيسة لطيفة وأكثر الإدراك بها فقد يبطلها ضرب الوجه وقد ينقصها وقد يشوه الوجه والشين فيه فاحش لانه بارز ظاهر لا يمكن ستره ومتى ضربه لا يسلم من شين غالبا ويدخل في النهي إذا ضرب زوجته أو ولده أو عبده ضرب تأديب فليجتنب الوجه."

(كتاب البر والصلة والآداب،باب النهي عن ضرب الوجه، ص:١٦٥،ج:١٦، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وإن وجب ضرب ابن عشر عليها بيد لا بخشبة) لحديث :مروا ‌أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر.

قال عليه في الرد: (قوله: بيد) أي ولا يجاوز الثلاث، وكذلك المعلم ليس له أن يجاوزها، قال عليه الصلاة والسلام لمرداس المعلم إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك،اهـ إسماعيل عن أحكام الصغار للأستروشني، وظاهره أنه لا يضرب بالعصا في غير الصلاة أيضا. (قوله: لا بخشبة) أي عصا، ومقتضى قوله بيد أن يراد بالخشبة ما هو الأعم منها ومن السوط أفاده ط."

(کتاب الصلوۃ، ١/ ٣٥٢، ط:سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"الضرب للتعليم:

١٣ - للمعلم ضرب الصبي الذي يتعلم عنده للتأديب. وبتتبع عبارات الفقهاء يتبين أنهم يقيدون حق المعلم في ضرب الصبي المتعلم بقيود منها:

أ - أن يكون الضرب معتادا للتعليم كما وكيفا ومحلا، يعلم المعلم الأمن منه، ويكون ضربه باليد لا بالعصا، وليس له أن يجاوز الثلاث، روي أن النبي عليه الصلاة والسلام قال لمرداس المعلم رضي الله عنه: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك.

ب - أن يكون الضرب بإذن الولي، لأن الضرب عند التعليم غير متعارف، وإنما الضرب عند سوء الأدب، فلا يكون ذلك من التعليم في شيء، وتسليم الولي صبيه إلى المعلم لتعليمه لا يثبت الإذن في الضرب، فلهذا ليس له الضرب، إلا أن يأذن له فيه نصا.

ونقل عن بعض الشافعية قولهم: الإجماع الفعلي مطرد بجواز ذلك بدون إذن الولي.

ج - أن يكون الصبي يعقل التأديب، فليس للمعلم ضرب من لا يعقل التأديب من الصبيان

قال الأثرم: سئل أحمد عن ضرب المعلم الصبيان، قال: على قدر ذنوبهم، ويتوقى بجهده الضرب وإذا كان صغيرا لا يعقل فلا يضربه."

(حرف التاء، تعليم و تعلم، ١٣ / ١٣، ط: دارالسلاسل)

فتاویٰ محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

’’چھوٹے بچوں کو بغیر چھڑی وغیرہ کے صرف ہاتھ سے وہ بھی ان کے تحمل کے موافق تین چپت تک مار سکتا ہے وہ بھی سر اور چہرہ کو چھوڑ کر یعنی گردن اور کمر پر،اس سے زیادہ کی اجازت نہیں،ورنہ بچے قیامت میں قصاص لیں گے،بچوں پر نرمی اور شفقت کی جائے،اب پیٹنے کا دور تقریباً ختم ہوگیا،اس کے اثرات اچھے نہیں ہوتے،بچے بے حیا اور نڈر ہوجاتے ہیں،مار کھانے کے عادی ہو کر یا د نہیں کرتے،بلکہ اکثر تو پڑھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘

(کتاب الحدود،باب التعزير ، ۱۴/ ۱۲۸، ط:اداره فاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100972

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں