بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شفیع الرحمٰن نام کا معنی


سوال

شفیع الرحمٰن نام کے کیا معنی ہے برائے مہربانی تفصیل سے بتائیں

جواب

شفیع الرحمٰن  نام رکھنا درست ہے،اور  شفیع الرحمٰن  بمعنی شافع الرحمٰن  یعنی اللہ کی طرف سے سفارش کرنے والا، یا شفیع الرحمٰن  بمعنی مشفوع الرحمٰن یعنی "اللہ کی طرف سےسفارش کیا ہوا" کے ہوگا۔نیز اس میں شفیع کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ کی صفت رحمٰن کی طرف ہورہی ہے اور نام رکھنے کا صحیح پسندیدہ طریقہ بھی یہی ہے کہ اس نام کی لفظی و معنوی نسبت اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کی طرف ہو،  البتہ مذکورہ نام رکھنے کے بعد بچے کو صرف رحمٰن سے پکارنا جائز نہیں ہوگا۔

الاقتضاب  فی غریب الموطا و إعرابه علی الأبواب میں ہے:

"وسمى صاحبها شفيعاً، ومعناه أنه مشفوع له، كما يقال: قتيل بمعنى مقتول، وجريج بمعنى مجروح. وقد يكون شفيع في غير هذا الموضع بمعنى شافع؛ لأن "فعيلاً" قد يكون بمعنى فاعل، كما يقال: عليم بمعنى عالم."

(کتاب الشفعة جلد ۲ ص : ۳۱۹ ط : مکتبة العبیکان)

الکاشف عن المحصول فی علم الاصول میں ہےـ:

"وأما البحث الأول عن الفعیل فنقول: الفعیل قد یکون بمعنی المفعول وقد یکون بمعنی الفاعل؛ أما الأول: فنحو قتیل بمعنی مقتول، و أما الثاني کلفظ قدیر بمعنی قادر." 

(الباب السادس : فی الحقیقة و المجاز جلد ۲ ص : ۱۸۷ ط : دار الکتب العلمیة)

تفسیرِ معارف القرآن  (مفتی محمد شفیعؒ) میں ہے:

"افسوس ہے کہ آج کل عام مسلمان اس غلطی میں مبتلا ہیں،  کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اسلامی نام ہی رکھنا چھوڑ دیے، ان کی صورت و سیرت سے تو پہلے بھی مسلمان سمجھنا ان کا مشکل تھا، نام سے پتا چل جاتا تھا، اب نئے نام انگریزی طرز کے رکھے جانے لگے، لڑکیوں کے نام خواتینِ اسلام کے طرز کے خلاف خدیجہ، عائشہ، فاطمہ کے بجائے نسیم،شمیم، شہناز، نجمہ، پروین ہونے لگے۔ اس سے زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ جن لوگوں کے اسلامی نام ہیں: عبدالرحمٰن، عبدالخالق، عبدالرزّاق، عبدالغفار، عبدالقدوس وغیرہ ان میں تخفیف کا یہ غلط طریقہ اختیار کرلیا گیا کہ صرف آخری لفظ ان کے نام کی جگہ پکارا جاتا ہے رحمٰن، خالق، رزّاق، غفار کا خطاب انسانوں کو دیا جارہا ہے۔ اور اس سے زیادہ غضب کی بات یہ ہے کہ ’’قدرت اللہ‘‘ کو ’’اللہ صاحب‘‘  اور ’’قدرت خدا‘‘  کو ’’خدا صاحب‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ سب ناجائز و حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے، اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں رہتا۔"

(معارف القرآن، ج:4، ص:132، ط:معارف القرآن کراچی)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144310100352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں