بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شفیع کو بیع کا علم ہوتے ہی شفعہ کا دعوی کرنا ضروری ہے


سوال

دو آدمیوں کے درمیان مشترکہ زمین ہے،جس کو ابھی تک تقسیم نہیں کیا گیا ہے،تقسیم کرنےسےپہلے ایک شریک نےاپنا حصہ فروخت کرلیا،توکیا اب دوسرےشریک کےلیےبیع کے وقت شفعہ کا دعوی ضروری ہے یا جب دونوں شریک اپنےسہام تقسیم کررہےہوں تو اس وقت بھی یہ دوسراشریک شفعہ کا دعوی کرسکتاہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس شخص کوحقِ شفعہ حاصل ہوتاہے، اس پرحقِ شفعہ کے ثبوت کےلیے لازم ہے کہ جس مجلس میں اسےزمین یا جائیداد کے فروخت کئے جانے کی خبر پہنچی ہو  اسی  مجلس میں   اپنےلیےحقِ شفعہ کےمحفوظ ہونے  کا اعلان کرے،پھر وہاں سے اٹھ کر فروخت کنندہ یا خریدار(جس کے قبضے میں زمین یا جائیداد ہو)یااس فروخت شدہ زمین کے پاس جاکر گواہوں کی موجودگی میں شفعہ کرنے کا اعلان کرے، اس صورت میں شفیع(شفعہ کرنےوالے)کاحقِ شفعہ برقرار رہے گا، البتہ اگروہ بیع(فروختگی) کی خبر سن کرخاموش رہااورمجلسِ علم میں شفعہ کرنے کا اعلان نہیں کیا تو اس کا حقِ شفعہ ساقط ہوجائےگا۔

اس کے بعد وہ عدالت سے رُجوع کرے اور وہاں اپنے استحقاق کا ثبوت پیش کرے،عدالت سے رُجوع کرنےمیں مفتی بہ قول کےمطابق بغیر کسی معقول عذر کے ایک مہینہ تک تاخیر کرنا اوراپنے حق کے حصول سے غفلت اختیا ر کرنا حق چھو ڑنے کے مترا دف ہوتاہے، کیونکہ بلا وجہ اتنی تا خیر بسا اوقا ت مشتری کے لیے ایذاء رسا نی کا با عث ہوتی ہے،لہذا اس قدرتاخیر سےبھی حقِ شفعہ ساقط ہوجاتاہے۔

صورتِ مسئولہ میں مشترکہ زمین میں سےایک حصے کی فروختگی کےوقت اگر دوسرےشریک کو اس کا علم ہو تو اسی مجلس میں اس کےلیےشفعہ کا دعوی کرنا ضروری ہے،اگر دوسرےشریک نے فروختگی کا علم ہونےکےباوجود شفعہ کا دعوی نہیں کیا تو اس کےبعد سہام کی تقسیم کےوقت اس کو شفعہ کا حق نہیں ہوگا،البتہ اگر فروختگی کےوقت اس کو علم نہ ہو تو جب بھی جس مجلس میں بھی اس کو فروختگی کا علم ہوجائے اسی مجلس میں شفعہ کا دعوی کرنا ضروری ہے،بصورتِ دیگر حقِ شفعہ ساقط ہوجائےگا،اس کےبعد وہ شفعہ نہیں کرسکتا۔

فتاوی مفتی محمود میں ہے: 

"اگر بیع کا علم ہوتے ہی شفعہ کرنے کا شرعًا جو طریقہ ہے شفیع اسے علی وجہ الکمال اختیار کر چکا ہے تو اس کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر عدالت میں دعوی خصومت دائر کرنا ضروری ہے اور اگر ایک ماہ گزر جائے اور وہ دعوی دائر نہ کرے تو اس کے شفعہ کا حق باطل ہو جائے گا۔"

(کتاب الشفعہ،  468/9،  ط:ادارۃ الفاروق)

"دررالحكام في شرح مجلة الأحكام" میں ہے:

"(مادة 1028)(‌يلزم ‌في ‌الشفعة ثلاثة طلبات وهي طلب المواثبة وطلب التقرير والإشهاد وطلب الخصومة والتملك)." 

"(مادة 1029)(ويلزم الشفيع أن يقول كلاما يدل على طلب الشفعة في المجلس الذي سمع فيه عقد البيع في الحال كقوله أنا شفيع المبيع أو أطلبه بالشفعة ويقال لهذا طلب المواثبة)."

(الكتاب التاسع، الفصل الثالث، 789/2، ط: دارالجيل)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(و أما) (حكمها) فجواز طلب الشفعة عند تحقق سببها وتأكدها بعد الطلب وثبوت الملك بالقضاء بها و بالرضا، هكذا في النهاية."

‌‌(كتاب الشفعة ، الباب الأول في تفسير الشفعة. . .، 161/5، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"الشفعة تجب بالعقد والجوار وتتأكد بالطلب والإشهاد وتتملك بالأخذ ثم الطلب على ثلاثة أنواع طلب مواثبة وطلب تقرير وإشهاد وطلب تمليك (أما طلب المواثبة) فهو أنه إذا علم الشفيع بالبيع ينبغي أن يطلب الشفعة على الفور ساعتئذ وإذا سكت ولم يطلب بطلت شفعته وهذه رواية الأصل المشهور عن أصحابنا وروى هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إن طلب في مجلس العلم فله الشفعة وإلا فلا بمنزلة خيار المخيرة وخيار القبول ۔۔۔ (وأما طلب الإشهاد) فهو أن يشهد على طلب المواثبة حتى يتأكد الوجوب بالطلب على الفور۔۔۔ ثم طلب الإشهاد مقدر بالتمكن من الإشهاد، فمتى تمكن من الإشهاد عند حضرة واحد من هذه الأشياء ولم يطلب الإشهاد بطلت شفعته نفيا للضرر عن المشتري."

(كتاب الشفعة، الباب الثالث قي طلب الشفعة، ج:5، ص:201-202، دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم بعد هذين الطلبين يطلب عند قاض---(وهو) يسمى (طلب تمليك وخصومة وبتأخيره مطلقا) بعذر وبغيره شهرا أو أكثر (لا تبطل الشفعة) حتى يسقطها بلسانه (به يفتى) وهو ظاهر المذهب،وقيل يفتى بقول محمد إن أخره شهرا بلا عذر بطلت كذا في الملتقى، يعني دفعا للضرر.۔۔۔ قال في شرح المجمع: وفي جامع الخاني: الفتوى اليوم على قول محمد لتغير أحوال الناس في قصد الإضرار اهـ."   

(كتاب الشفعة، باب طلب الشقعة، 226/6، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101534

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں