ہماری زمینوں کے پاس ایک زمین تھی ، جس کا مالک اسے بیچنا چاہتا تھا، چوں کہ ہمارے علاقے کا اصول ہے،کہ اس زمین کے ساتھ جس کی زمین ہے وہ زمین خرید سکتا ہے ہماری زمینوں کےقریب جس کی زمین تھی وہ اسےفروخت کرناچاہتاتھا،ہمارےعلاقےکےایک مولوی صاحب اس کےپاس آکرکہنےلگاکہ میں آپ کی زمین خریدنا چاہتا ہوں، میں اس پر مسجد بناؤں گا، زمین کے مالک نے صاف انکار کیا،کہ جس کی زمین میری زمین کےساتھ ملی ہےپہلے اس کا حق ہے ،آپ جاکر ان سے اجازت لیں، پھر میں آپ کو زمین بیچوں گا ،مولوی صاحب میرے والد صاحب کے پاس آگئے اور میرے والد صاحب کو کہا کہ میں وہاں مسجد بنانا چاہتا ہوں ،آپ مجھے اجازت دیں ، تاکہ میں وہ زمین مسجد کیلئے خرید لوں ،آپ کی اجازت کے بغیر مالک مجھے زمین نہیں دے رہا ہے، والد صاحب نے کہا آپ بہت اچھے کام کےلیےزمین خریدرہے ہیں، اللہ کا گھر بنا رہے ہو ،میری طرف سے آپ کو اجازت ہے ،بلکہ ہم تعاون کریں گےتمہارےساتھ، اجازت لینےکےبعد مولوی صاحب نےزمین خریدلی، اب مولوی صاحب وہاں مسجد نہیں بنا رہا ،بلکہ وہ اس زمین میں کاشت کرتا ہے، ہم نے کہا آپ مسجد نہیں بنا رہے تو زمین ہم کو واپس کر دو ،اب وہ ضد پہ ہے کہ میں مسجد نہیں بنا وں گا اور زمین بھی واپس نہیں کروں گا، دونوں سائیڈوں پر ہماری زمین ہے، اب وہ زمین کو کاشت کرتا ہے جب کہ اس نےمسجد کے نام پر ہم سے زمین لی ہے، اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
واضح رہےکہ جوشخص اپنی زمین یاگھربیچناچاہے،تواس کوسب سےپہلےاپنےشریک (اگراس زمین میں اس کےساتھ کوئی شریک ہو)کی رضامندی معلوم کرنا ضروری ہے ،اگرشریک نہ ہوتوجس کی زمین اس بیچنےوالےکی زمین سےمتصل ہواس کی رضامندی معلوم کرنا ضروری ہے،اگرمتصل کسی کی زمین نہ ہو،توپھراپنےپڑوس میں رہنے والوں کی رضامندی معلوم کرنا ضروری ہے،یعنی زمین کےخریدنےمیں ان تین طرح کےلوگوں کاحق سب سےپہلےہے،اس کوشریعت کی اصطلاح میں ’’حقِ شفعہ‘‘ کہتےہیں،اگرکسی وجہ سےیہ لوگ اسی ترتیب پر خریدنا نہیں چاہتےتوپھرکسی دورکےشخص کوبیچنادرست ہوگا۔
اورحقِ شفعہ سےدستبراری بھی شرعاًدرست ہے،لیکن دستبرداری کےلیےاصول یہ ہےکہ شفیع(وہ ہمسایہ جس کودوسرےہمسایہ کی بیچی جانےوالی زمین کےخریدنے کاحق حاصل ہو)ایسی رضا مندی کےساتھ دستبردارہواہوکہ جس میں شفیع دھوکہ میں نہ پڑاہو،اگرشفیع کودھوکہ دےکردستبردارکرادیاگیا،تواس صور ت میں دھوکہ کاعلم ہو جانےکےبعدبھی شفیع کوحقِ شفعہ حاصل رہتاہے،وہ ختم نہیں ہوتا۔
اب صورت مسئولہ میں اگرواقعۃ مذکورہ مولوی صاحب نےسائل کوشفعہ سےدستبردارکرنےکےلیےیہ کہاتھا،کہ تم اس زمین کونہ خریدو،میں اسےخریدکرمسجدبناؤں گااور اس کےبعدوہ مسجد بنانے سےانکارکرتاہے،تو سائل کواس زمین کاپڑوسی ہونےکی وجہ سےشفعہ کاحق حاصل ہے،اگرسائل چاہےتوعدالت میں شفعہ کادعوی دائر کر کےیہ زمین حاصل کرسکتاہے۔
المحیط البرہانی میں ہے:
"إذا أخبر بالبيع فسلم ثم علم أن البيع كان بخلافه إذا أخبر الشفيع أن المشتري فلان فسلم الشفعة، فإذا المشتري غيره فهو على شفعته؛ لأنه رضي بجوار شخص معين، فلا يكون راضياً بجوار غيره؛ ولأنه سلم شفعته عقد لم يعقد بعد؛ لأنه سلم شفعة زيد، وزيد لم يعقد فلم يصح تسليمه."
(كتاب الشفعة، الفصل العاشر: في الشفيع،ج:7، ص:288، ط:دار الكتب العلمية)
بدائع الصنائع میں ہے:
"فالأصل في جنس هذه المسائل أنه ينظر إن كان لا يختلف غرض الشفيع في التسليم صح التسليم وبطلت شفعته، وإن كان يختلف غرضه لم يصح وهو على شفعته؛ لأن غرضه في التسليم إذا لم يختلف بين ما أخبر به وبين ما بيع به وقع التسليم محصلا لغرضه فصح، وإذا اختلف غرضه في التسليم لم يقع التسليم محصلا لغرضه فلم يصح التسليم."
(كتاب الشفعة، فصل في بيان ما يبطل به حق الشفعة بعد ثبوته، ج:5، ص:19، ط:دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603101157
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن