بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شریعت میں ایمان یقین بنانا کہاں تک ضروری ہے اور اِس کی شرعی حیثیت کا بیان


سوال

 1. ایمان و عقائد کی جگہ ایمان و یقین کا بیان کیوں جبکہ ہر کتب فقہ میں ایمان و عقائد کا ہی باب کا ذکر کرنا فقہاء کا معمول رہا ہے؟

2. شریعت میں یقین بنانا کہاں تک ضروری ہے کہ یہ فرض، سنت، واجب کیا ہے؟

3. کسی مدرسہ کا استاذ چار مہینہ کے واسطے جماعت میں وقت لگاتا ہے اور مدرسہ سے تنخواہ بھی بغیر پڑھائےبرابر لیتا رہے، کیا یہ جائز ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ ایمان و یقین اور ایمان و عقائد میں کوئی تضاد نہیں ہےبلکہ یہ قریب المفہوم الفاظ ہیں،فقہاء کا معمول یہ ہوتاہے کہ پہلے ایمان کو بیان کرتے ہیں اس کے بعدعقائد کا ذکر کرتےہیں، اور ایمان و یقین سے بھی یہی مطلوب ہوتاہےکہ جن جیزوں پر ہم ایمان لائے ہیں اورجوہمارے عقائد ہیں ان میں پختگی ضروری ہے،لہٰذا  دونوں لفظوں  کا مفہوم قریب قریب ہے۔

(وبالآخرۃ ھم یوقنون )یقین کا مقابل شک و تردد ہے ،اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ آخرت کی زندگی کی محض تصدیق کرنا مقصود  کو پورا نہیں کرتا،بلکہ اس کا ایسا یقین رکھناضروری ہے جیسے کوئی چیزآنکھوں کے سامنے ہو۔

(معار ف القرآن )

لہٰذااتنا یقین بنانا فرض ہے کہ جو بندہ کو اللہ کے احکامات پر کھڑا کرے ،اور اللہ کے وعدوں اور وعیدوں میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے۔

3۔صورتِ مسؤلہ میں مدرسین کو سال میں جتنی تعطیلات کا ضابطہ مذکورہ مدرسہ میں موجود ہے،صرف اُن تعطیلات ہی کی تنخواہ حسب ضابطہ دی جائیگی،اِس سے زیادہ چھٹی دینے کی صورت میں مدرس خود تو تعطیل کے ایّام کے مشاھرے کا حقدار نہیں ہوگا،اور مہتمم کے لیے مدرسے کے فنڈ سے اداکرنا جائز نہیں ہوگا،ہاں اگر کسی مخیر سے لے کر اُسے دیا جائے تو یہ الگ بات ہے۔

تبیین الحقائق  میں ہے:

"والأجير الخاص من يكون العقد واردا على منافعه و لاتصير منافعه معلومة إلّا بذكر المدّة أو بذكر المسافة و منافعه في حكم العين، فإذا صارت مستحقة بعقد المعاوضة لإنسان لا يتمكن من إيجابه لغيره."

( کتاب الاجیر ،باب ضمان الاجیر،ج:6،ص:136،ط:سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"الأجير الخاص هو من يعمل لمعيّن عملا مؤقتا و يكون عقده لمدة و يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، لأنّ منافعه صارت مستحقة لمن استاجره في مدة العقد."

(كتاب الإجارة ،الفرع الثالث إجارة الأشخاص، المطلب الأول الأجير الخاص، ج: 1، ص: 102، ط: وزارة الاوقاف و الشؤن الاسلامية)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"جب مدرس کے لیے اوقات متعین کردیے گئے ،تو اِن اوقات میں وہ اجیر خاص ہے ،ان اوقات میں اُس کو دوسرا کام کرنا جائزنہیں ہے،بغیر اجارۃ کے معمولی مختصر سا کام جس پر عرفاً چشم پوشی کی جاسکتی ہےکہ اس سے مدرسے کے کام کوئی معتد بہ حرج نہ ہو،یا ضروریات میں سے ہوتو اس کی اجازت ہے،مثلا : کوئی معمولی خط لکھ دیا،یا پیشاب و پاخانہ کی ضرورت پیش آگئی۔"

(کتاب الاجارۃ ،ج:16،ص:573،ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

امداد الفتاوی میں ہے:

"اصل یہ ہے کہ ایسے اموال میں کسی تصرف کا جواز اورعدم جواز معطین اموال کی اذن و رضا پر موقوف ہے،اور مہتمم مدرسہ اِن معطین کا وکیل ہوتاہے،پس وکیل کو جس تصرف کا اِذن دیا گیاہےوہ تصرف اُس وکیل کو جائزہے ،سو جس مہتمم نے مدرسین کو مقرر کیاہے،اگر اس مہتمم کو معطین نے اس صورت کے متعلق کچھ اختیارات دیے ہیں،اور مہتمم نے ان مدرسین سے  اختیار  کے موافق کچھ شرائط کر لیے ہیں،تب تو اان شرائط کے موافق تنخواہ لینا جائزہے،اسی طرح جو اختیارات وظیفہ کے متعلق مہتمم کو دیے گئے ہیں ان کے موافق اس کا لینا دینابھی جائز ہوگا،اور اگر تصریحاً اختیارات و شرائط نہیں ہوئے،لیکن مدرسہ کےقواعدمدون و معروف ہیں تو وہ بھی مثل مشروط کے ہوں گے،اوراگر نہ مصرح ہیں اور نہ معروف ہیں تو دوسرے مدارس اسلامیہ میں جو معروف ہیں اِن کا اتباع کیا جاوے گااور اگر یہ آمدنی کسی وقف جائداد کی ہے تو اس کا حکم دوسراہے۔"

(کتاب الاجارۃ ،ج:3،ص:347،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101219

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں