بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی والے گھر کی سجاوٹ کس حد تک جائز ہے؟


سوال

شادی والے گھر کی سجاوٹ کس حد تک جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شادی کے موقع  پر شریعت کا حکم یہ ہے کہ نبی کریم  ﷺ کی ہدایات کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں، لہذا نبی کریم ﷺ  کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ : "سب سے زیادہ برکت والا وہ نکاح ہوتا ہے ، جس میں سب سے کم خرچ ہو۔"، ساتھ قرآن کریم میں فضول خرچی سے اجتناب کرنے کو بھی کہا گیا ہے،چناں چہ  شادی کے موقعہ پر   گھر  کو صاف ستھرا رکھنا  اور تکلفات سے بچ کر اس کی سجاوٹ ایک مباح کام ہے، اللہ تعالی نے جس شخص کو جتنی استطاعت دی ہے، اس کے مطابق خرچ کرنا چاہے، تو خرچ  کرسکتا ہے،البتہ  دکھاوے کی نیت سے خرچ نہ کریں  اور ساتھ ساتھ فضول خرچی  سے اجتناب بھی کریں، یعنی عام طور پر مہذب برادری اور عرف میں جس قدر گھر کی سجاوٹ کو  ضروری سمجھا جاتا ہےتو اس قدر پر ہی اکتفاء کرے،اس سے زائد نہ کریں۔

قرآن کریم میں ہے:

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا. (سورۃ الاسراء:27)

ترجمہ:کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان اپنے پروردگار (کی نعمتوں) کا کفر ان کرنے والا (یعنی ناشکرا) ہے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

"عن عائشة قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن ‌أعظم ‌النكاح بركة أيسره مؤنة»"

(‌‌مشكوة،كتاب النكاح،‌‌الفصل الثالث،930/2، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمه: "سب سے زیادہ برکت والا وہ نکاح ہوتا ہے ، جس میں سب سے کم خرچ ہو۔"

عیون المسائل للسمرقندی الحنفی میں ہے:

"ولو بنى داره بالجص وزينه بماء الذهب فلا بأس به، وتركه أفضل، ولا يكون حراماً."

(‌‌باب السير‌‌،تزيين الدار ،427، ط:مطبعة أسعد، بَغْدَاد)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101841

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں