عورتیں اپنے بال کھول کے گھوم سکتی ہیں؟ ایسی عورتیں جن کو شادی کی امید نہ رہے کیا وہ ایسا کرسکتی ہیں ؟
اگر سائل کا مقصد یہ ہے کہ گھر میں عورت اپنے بال کھول کرگھوم سکتی ہے یا نہیں ،تو جاننا چاہیے کہ گھر میں عورت کا اپنے بال کھلے رکھنا جب کہ کوئی نامحرم مرد وہاں موجود نہ ہو،درست ہے،لیکن اگر گھر میں کسی نامحرم کے آنے کا امکان ہو،تب گھر میں بھی بال کھلے رکھنا درست نہیں ۔
اور اگر سائل کا مقصد یہ ہے کہ گھر سے باہر بال کھول کر گھومنا ،تو اگر چہ عورت اس درجہ پہنچ چکی ہو،کہ اس کو شادی کی امید نہ رہے ،تب بھی اس کے لیے بال کھول کر گھر سے نکلنا درست نہیں ۔
قرآن کریم میں ہے:
"وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ۪-وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ-وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ."(سورة النور31)
وفیہ ایضا:
"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (الأحزاب: 59)".
تفسیر روح المعانی میں ہے:
"ومن للتبعيض ويحتمل ذلك على ما في الكشاف وجهين، أحدهما أن يكون المراد بالبعض واحدا من الجلابيب وإدناء ذلك عليهن أن يلبسنه على البدن كله، وثانيهما أن يكون المراد بالبعض جزءا منه وإدناء ذلك عليهن أن يتقنعن فيسترن الرأس والوجه بجزء من الجلباب مع إرخاء الباقي على بقية البدن."
(سورة الاحزاب، ج:11، ص:264، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وینظر الرجل ․․․ و من محرمه هي من لا تحل له نکاحها أبداً․․․الیٰ الرأس والصدر والساق والعضد الخ."
(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:364، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506100273
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن