کیا میں اپنی شادی شدہ بہن کو زکوۃ دے سکتی ہوں ؟میری بہن کے چار بچے ہیں اور مالی حالات بھی اچھے نہیں ہیں، کیا ہم اسے بچوں اور گھر کے معاملات چلانے کے لیے زکوۃ دے سکتے ہیں؟ بہن کے پاس سات تولہ سونا نہیں ہے اور بہن کے شوہر کا کام ایسا ہے کہ ہاتھ تنگ کر کے گزارا ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے، سواری وغیرہ)سے زائد، نصاب کے بقدر (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر) مال یا کسی بھی قسم کا سامان موجود نہ ہو اور وہ ہاشمی (سید/ عباسی) نہ ہو، وہ زکاۃ کا مستحق ہے،اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے ضرورت کے مطابق زکاۃ لینا جائز ہے لہذ ا صورت مسئولہ میں سائلہ کی بہن کے پاس اگر ضرورت سے زائد نصاب کے بقدر مال نہیں ہے تو سائلہ اس کو زکوۃ دے سکتی ہے اس میں دوہرا اجر ہے اس لیے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی کا بھی اجر ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم ولهذا تقبل شهادة البعض على البعض والله أعلم."
(کتاب الزکوۃ، فصل رکن الزکوۃ جلد 2 ص: ۵۰ ط: دار الکتب العلمیة)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407101534
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن