بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی شدہ عورت سے شادی کی دعا کا حکم


سوال

کیا یہ دعا قطع رحمی میں آۓ گی کہ کوئی شخص  کسی شادی شدہ  عورت سے اپنے نکاح کی دعا مانگے؟ 

جواب

کسی کی منکوحہ بیوی سے شادی کی دعا مانگنا دراصل دل میں اس سے ایک نعمت کے چھن جانے اور خود کو حاصل ہونے کی تمنا ظاہر کرنا ہے، شرعاً  واخلاقاً ایسی دعا ناروا ہے۔

قرآنِ مجید میں دعا کا حکم اور ادب بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی فرماتے  ہیں:

(ادعوا ربکم تضرعاً و خفیة انه لایحب المعتدین)

ترجمہ: تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو،تذلل ظاہر کرکے بھی اور چپکے چپکے بھی، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں جو دعا میں حد ادب سے نکل جاتے ہیں۔ (بیان القرآن)

حضرت تھانوی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں مزید لکھتے ہیں:

"مثلاً محالاتِ عقلیہ یا محالاتِ شرعیہ یامستبعداتِ عادی یا معاصی یا بےکار چیزیں مانگنے لگیں، مثلاً خدائی یا نبوت یا فرشتوں پرحکومت یاغیر منکوحہ عورت سے تمتع یا فردوس کے داہنی طرف کا سفید محل اور امثال اس کے مانگنے لگے، یہ سب ادب کے خلاف ہے، ہاں جنت یافردوس کی دعامطلوب ہے اس میں یہ فضول قیدیں ممنوع ہیں۔"

مفتی محمد شفیع صاحب اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:

آخر آیت میں ارشاد فرمایا اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ معتدین، اعتداء سے مشتق ہے اعتداء کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا، معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتے، حد سے آگے بڑھنا خواہ دعا میں ہو یا کسی دوسرے عمل میں سب کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو دین اسلام نام ہی حدود و قیود کی پابندی اور فرمانبرداری کا ہے، نماز، روزہ، حج ، زکوٰة اور تمام معاملات میں حدود شرعیہ سے تجاوز کیا جائے تو وہ بجائے عبادت کے گناہ بن جاتے ہیں۔

دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی کئی صورتیں ہیں:

ایک یہ کہ دعا میں لفظی تکلفات قافیہ وغیرہ کے اختیار کیے جائیں جس سے خشوع خضوع میں فرق پڑے۔

دوسرے یہ کہ دعا میں غیر ضروری قیدیں شرطیں لگائی جائیں، جیسے حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) نے دیکھا کہ ان کے صاحب زادے اس طرح دعا مانگ رہے ہیں کہ یا اللہ میں آپ سے جنت میں سفید رنگ کا داہنی جانب والا محل طلب کرتا ہوں، تو موصوف نے ان کو روکا، اور فرمایا کہ دعا میں ایسی قیدیں شرطیں لگانا حد سے تجاوز ہے، جس کو قرآن و حدیث میں ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔(مظہری)۔

تیسری صورت حد سے تجاوز کی یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے بددعا کرے یا کوئی ایسی چیز مانگے جو عام لوگوں کے لیے مضر ہو۔

اسی طرح ایک صورت حد سے تجاوز کی یہ بھی ہے جو اس جگہ مذکور ہے کہ دعا میں بلا ضرورت آواز بلند کی جائے ۔(تفسیر مظہری، احکام القرآن)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144107200248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں