بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی شدہ کا پردیس میں مشت زنی کرنا


سوال

اگر ایک شادی شدہ شخص پردیس میں ہونے کی وجہ سے اپنی شہوت پر قابو نہیں رکھ سکتا اور ہاتھ سے اپنی شہوت پوری کرتا ہو اس کے لیے کیا حکم ہے، اور وہ شخص اس کام سے بچنے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھر بھی یہ گناہ اس سے ہو جاتا ہے۔

جواب

مشت زنی کرنا ناجائز اور گناہ ہے،  اس کی حرمت قرآن کریم سے ثابت ہے۔ارشاد باری تعالی ٰ ہے:

"{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}"( سورۃ المومنون ۵ تا ۸)

ترجمہ :"اور جو اپنی شرمگاہوں کی (حرام شہوت رانی سے )حفاظت رکھنے والے ہیں لیکن اپنی بیبیوں سےیا اپنی (شرعی )لونڈیوں سے(حفاظت نہیں  کرتے )کیونکہ ان پر (اس  میں )کوئی الزام نہیں ہاں جو اس کے علاوہ (اور جگہ  شہوت رانی کا) طلب گار ہو ایسے لوگ حد (شرعی )سے نکلنے والے ہیں  ۔ "

(ترجمہ از بیان القرآن)

نیز کئی احادیث میں اس فعل ِ بد  پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"عن أنس بن مالك عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "سبعة لا ينظر الله عز وجلّ إليهم يوم القيامة  .....الناكح يده".

ترجمہ:"انس بن مالک  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا  :سات قسم کے لوگ ہیں اللہ تعالی قیامت کے دن ان سے کلام نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا ۔ اپنے ہاتھ کے ساتھ جماع کرنے والا ۔ ( یعنی مشت زنی کرنے والا ) ۔"

(شعب الایمان اردو ،قاضی ملک  محمد اسماعیل 4 /306 ط: دارالاشاعت کراچی)

ایک  اور حدیث میں ارشاد فرمایاگیا ہے کہ:

"قال البخاري في "التاريخ".... عن أنس بن مالك قال: يجيء الناكح يده يوم القيامة ويده حبلى".

ترجمہ: "بخاری نے اپنی تاریخ میں انس بن مالک  کے حوالے سے  کہا ہے کہ " قیامت کے دن مشت زنی کرنے والا اس حال میں آئے گا اس کے ہاتھ میں حمل ہوگا "۔

(شعب الایمان اردو ،قاضی ملک  محمد اسماعیل 4 /306 ط: دارالاشاعت کراچی)

لہذا اس گناہ کے فعل سے بچنا ضروری ہے، البتہ  اگر سائل پر  شہوت کا اس قدر غلبہ ہو کہ مشت زنی کے  گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو درج ذیل صورتوں پر عمل کرے:

(1) بیوی کے پاس آنے کی یا اس کو اپنے پاس بلانے کی  فوری کوئی صورت اختیار کرے۔

(2)  روزے رکھے ؛ کیوں کہ روزہ رکھنے سے شہوت مغلوب ہوتی ہے۔

(3) ایسی غذا ئیں استعمال نہ کرے جس سے شہوت میں اضافہ ہوتا ہو۔

(4)  غلط ماحول اور خیالات سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کرے، اپنے آپ کو مصروف رکھے، حتی الامکان تنہائی سے احتراز کرے، اور جہاں تنہائی ناگزیر ہو وہاں کم سے کم وقت گزارنے کی عادت اور ترتیب بنائے۔

شعب الایمان میں ہے:

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ". 

(حفظ اللسان عمالایحتاج الیه ، تحریم الفروج ومایجب من التعفف عنھا  7/ 329 ط: مكتبة الرشد)

فتاوى شامی میں ہے:

"استدل (الزيلعي شارح الكنز) على عدم حله بالكف بقوله تعالى: {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] الآية، وقال: فلم يبح الاستمتاع إلا بهما: أي بالزوجة والأمة اهـ  فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشهوة بغيرهما اهـ قلت: فإن لم يوجد سند الأحاديث محتجًّا به فلايضر المستدل، فإن الدعوي ثابتة بالقرآن المجيد، وجعله صاحب الدر المختار مكروهًا تحريمًا".

(كتاب الصوم ، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده 2 / 399 ط: سعيد)

تبيين الحقائق   میں ہے:

"والاستمناء بالكف على ما قاله بعضهم، وعامتهم على أنه يفسد، ولايحل له إن قصد به قضاء الشهوة؛ لقوله تعالى: {والذين هم لفروجهم حافظون} [المؤمنون: 5] {إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم} [المؤمنون: 6] إلى أن قال {فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون} [المؤمنون: 7] أي الظالمون المتجاوزون فلم يبح الاستمتاع إلا بهما، فيحرم الاستمتاع بالكف، وقال ابن جريج: سألت عنه عطاء، فقال: مكروه، سمعت قومًا يحشرون وأيديهم حبالى، فأظن أنهم هم هؤلاء. وقال سعيد بن جبير: عذّب الله أمَّةً كانوا يعبثون بمذاكيرهم".  

(كتاب الصوم ، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده 1 / 323 ط: مكتبه امداديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410101201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں