بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

شادی شدہ عیسائی عورت مسلمان ہوجائے تونکاح کا کیا حکم ہے؟


سوال

 ایک عیسائی عورت   مسلمان ہوناچاہتی ہے، جب کہ اس کا شوہر  عیسائی ہے،اب سوال یہ ہے کہ عورت کے مسلمان ہونے سے  عیسائی شوہر سے  اس کا نکاح باقی رہے گا یا نہیں؟اگر  نکاح ختم ہوجائے گاتو کیا وہ کسی مسلمان مرد سے شادی کرسکتی ہے؟

 

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی غیر مسلم شادی شدہ عورت مسلمان  ہوجائے تواس پر لازم ہےکہ اپنے شوہر کو اپنے مسلمان ہونے کی خبرکر دے،اور شوہر کو شرعی گواہوں کی موجودگی میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دے،اگر شوہر اسلام قبول کرلے تو دونوں کا سابقہ نکاح ہی قائم رہے گا،اور اگر شوہر انکار کردے تو نکاح ختم ہوجائے گا،نیز اگر شوہر صراحتاًانکار نہیں کرتا، بل کہ خاموش رہتا ہےتو تین مرتبہ اسلام کی دعوت دینےکے بعد خاموش رہنے کو انکار سمجھا جائے گا،انکار کے بعد دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا اور عورت پرعدت لازم ہوگی ، عدت (حمل نہ ہونے کی صورت میں تین ماہواری،اوراگر حمل ہو تو وضعِ حمل تک)گزارنے کے بعد عورت  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا) (أسلم أحد الزوجين المجوسيين أو امرأة الكتابي عرض الإسلام على الآخر، فإن أسلم) فبها (وإلا) بأن أبى أو سكت (فرق بينهما)......(والتفريق) بينهما (طلاق) ينقص العدد (لو أبى لا لو أبت).

(قوله: أو سكت) غير أنه في هذه الحالة يكرر عليه العرض ثلاثا احتياطا، كذا في المبسوط نهر (قوله: فرق بينهما) وما لم يفرق القاضي فهي زوجته، حتى لو مات الزوج قبل أن تسلم امرأته الكافرة وجب لها المهر: أي كماله وإن لم يدخل بها لأن النكاح كان قائما ويتقرر بالموت فتح، وإنما لم يتوارثا لمانع الكفر.... وأشار بالطلاق إلى وجوب العدة عليها إن كان دخل بها لأن المرأة إن كانت مسلمة فقد التزمت أحكام الإسلام ومن حكمه وجوب العدة.

(كتاب النكاح، باب نكاح الكافر، ج:3، ص:188، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو أسلم أحد الزوجين عرض الإسلام على الآخر فإن أسلم وإلا فرق بينهما كذا في الكنز. وإن سكت ولم يقل شيئا فالقاضي يعرض الإسلام عليه مرة بعد أخرى حتى يتم الثلاث احتياطا كذا في الذخيرة....وإن أسلمت المرأة وأبى الزوج وفرق تكون الفرقة طلاقا عند أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - كذا في محيط السرخسي."

(کتاب النکاح، الباب العاشر فی نکاح الکفار، ج:1، ص:338، ط:دار الفکر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144602101428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں